اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ، اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی 27.4 فیصد ریکارڈ

01 ستمبر 2023
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی عروج پر رہی—فائل/فوٹو: ڈان
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی عروج پر رہی—فائل/فوٹو: ڈان

ملک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے نتیجے میں اگست کے دوران مہنگائی کی شرح ہدف سے زیادہ 27.4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

وفاقی ادارہ شماریات سے جاری اعداد شمار کے مطابق مہنگائی کے اضافے سے عالمی مالیاتی ادرہ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت اصلاحات کے طور پر قیمتوں کے دباؤ اور کرنسی کی تنزلی پر نظر رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق اشیائے خورونوش کی مہنگائی میں سال بہ سال کی بنیاد پر بدستور اضافہ ہوا اور 38.5 فیصد پر رہی۔

پاکستان نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا تھا اور معاشی استحکام ملک کی اولین ترجیح ہے تاہم معاشی حالات کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے اصلاحات میں درآمدات پر عائد پابندی میں نرمی اور سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل تھا جس سے پہلے ہی مہنگائی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

اسی طرح شرح سود بھی بڑھا دیا گیا ہے اور روپے کی قدر ریکارڈ سطح تک گر چکی ہے، گزشتہ ماہ روپے کی قدر میں 6.2 فیصد گراوٹ ہوئی تھی۔

وفاقی ادارہ شماریات کے اگست کے اعداد وشمار کےمطابق ماہانہ بنیاد پر جولائی کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح معمولی کم ہو کر 28.3 فیصد ہوگئی ہے لیکن سالانہ بنیاد پر اضافہ ہوا اور 38.5 فیصد ہوگئی ہے، غذائی اشیا کی مہنگائی 42.79 فیصد اور پھل اور سبزیوں کی مہنگائی میں 12.69 فیصد اضافہ ہوا۔

اعداد و شمار کے مطابق سالانہ مہنگائی شہری اور دیہی علاقوں میں بالترتیب 25 فیصد اور 30.9 فیصد رہی۔

سالانہ بنیاد پر سب سے زیادہ مہنگائی بیوریجز اور ٹوبیکو پر 97.51 ریکارڈ کی گئی، تفریح و ثقافت 61.38 فیصد، غذائی اجناس اور گھریلو اشیا کی مہنگائی 41.71 فیصد تک پہنچ گئی۔

سال بہ سال مہنگی ہونے والی اشیا

  • بیوریجز اور تمباکو : 97.51 فیصد
  • سیاحت: 61.38
  • غذائی اجناس: 42.79
  • گھریلو اشیا: 41.71
  • دیگر اشیا و خدمات: 40.84 فیصد
  • ریسٹورنٹس اور ہوٹلز: 34.06 فیصد
  • ٹرانسپورٹ: 22.96 فیصد
  • صحت: 22.55 فیصد
  • کپڑے اور جوتے: 18.46 فیصد
  • پھل اور سبزیاں: 12.69 فیصد
  • تعلیم: 10.47 فیصد
  • کمیونیکیشن: 7.03 فیصد
  • ہاؤسنگ اور یوٹیلیٹیز: 6.25 فیصد

شہری علاقوں میں اگست میں گزشتہ برس کے مقابلے میں مہنگی ہونے والی اشیائے خورونوش:

  • سگریٹس: 117.48 فیصد
  • آٹا: 99.68 فیصد
  • چائے: 94.5 فیصد
  • اسپائسیز: 75.14 فیصد
  • چینی: 70.64 فیصد
  • چکن: 67.56 فیصد
  • چاول: 66.82 فیصد
  • آلو: 59.71 فیصد
  • ڈرائی فروٹ: 48.8 فیصد
  • بیوریجز: 46.43 فیصد
  • ملک پاؤڈر: 44.39 فیصد
  • دال ماش: 32.4 فیصد
  • ڈیری مصنوعات: 31.49 فیصد
  • تازہ دودھ: 29.25 فیصد
  • دال مونگ: 27.59 فیصد
  • ٹماٹر: 23.17 فیصد
  • کوکنگ آئل: 3.45 فیصد

سالانہ بنیاد پر مہنگی ہونے والی دیگر اشیا

  • گیس چارجز: 62.82 فیصد
  • گھریلو اشیا: 40.3 فیصد
  • موٹر گاڑیوں کے اجزا: 34.67 فیصد
  • ایندھن: 33.27 فیصد
  • اخبارات: 32.77 فیصد
  • فرنیچر: 28.2 فیصد
  • میکینیکل سروسز: 27.68 فیصد
  • تعمیراتی اشیا: 26.55 فیصد
  • موٹرفیول: 21.02 فیصد
  • ڈینٹل سروسز: 10.9 فیصد
  • پوسٹل سروسز: 9.13 فیصد
  • گھروں کا کرایہ: 5.25 فیصد

دوسری جانب حکومت نے جمعے کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بھی بڑا اضافہ کردیا ہے، جس سے خراب ہوتے معاشی حالات کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت بھی احتجاج اور مظاہروں کی صورت میں ابتر ہو رہا ہے۔

جماعت اسلامی نے بجلی کے ہوشربا بلوں پر ہفتے کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا، عام شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق اسلام آباد میں واقع ایک پیٹرول پمپ پر بینک میں کام کرنے والے شہری وسیم احمد کا کہنا تھا کہ متوسط طبقہ بدحال ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری تنخواہ کا 60 سے 70 فیصد بلز اور پیٹرول پر خرچ ہوتا ہے تو بنیادی ضروری اشیا کہاں سے خریدیں گے، اسی لیے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے کہا کہ اگست میں مہنگائی توقعات کے مطابق تھی۔

انہوں نے کہا کہ لیکن روپے کی قدر میں کمی اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ ہمیں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح میں کوئی بڑی کمی نظر نہیں آئے جس کا اس سے پہلے توقع کی جا رہی تھی۔

محمد سہیل حکومت کے ان تخمینوں کا حوالہ دے رہے تھے، جس کے مطابق سال کے آخر تک مہنگائی کی شرح گر کر 22 فیصد تک آئے گی جبکہ ماہرین نے پیش گوئی کی تھی مہنگائی کی شرح 26 سے 28 فیصد کے درمیان رہے گی۔

اسٹیٹ بینک نے جولائی میں اپنی آخری مانیٹری پالیسی میں کہا تھا کہ اگلے 12 ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح تنزلی کی طرف جائے گی جبکہ اسٹیٹ بینک نے اس وقت شرح سود 22 فیصد مقرر کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں