گلگت بلتستان میں امن وامان برقرار رکھنے کیلئے فوج طلب کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2023
یہ فیصلہ گزشتہ روز چیف منسٹر کی سربراہی میں پارلیمانی امن کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا—فوٹو: امتیاز علی تاج
یہ فیصلہ گزشتہ روز چیف منسٹر کی سربراہی میں پارلیمانی امن کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا—فوٹو: امتیاز علی تاج

گلگت بلتستان کی حکومت نے خطے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے فوج بلانے کا فیصلہ کرلیا۔

یہ فیصلہ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں پارلیمانی امن کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا، حکام نے خطے کے بڑے شہروں میں رینجرز، گلگت بلتستان اسکاؤٹس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) اہلکاروں کو تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

یہ پیش رفت دیامر کے علاقے چلاس میں مظاہروں کے بعد علاقے میں خوف و ہراس اور بدامنی پھیلنے کے بعد سامنے آئی ہے۔

مشتعل مظاہرین نے اسکردو سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما کی مبینہ طور پر متنازع ریمارکس دینے پر گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے شاہراہ قراقرم اور بابوسر پاس روڈ کو 3 روز تک بند رکھا۔

استور، گلگت میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، تاہم مذہبی رہنما آغا باقر الحسینی کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے بعد مظاہرے ختم کر دیے گئے۔

اس کے ردعمل میں اسکردو میں بازاروں اور ٹرانسپورٹ کی ہڑتال کی گئی اور مظاہرین نے جگلوٹ-اسکردو روڈ سمیت اہم سڑکوں کو بھی بلاک کردیا۔

بعدازاں گلگت بلتستان کی حکومت نے مسافروں کی حفاظت اور گاڑیوں کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے قراقرم ٹاسک فورس اور پولیس اہلکاروں کو قرقرام ہائی وے، جگلوٹ-اسکردو روڈ اور بابوسر ٹاپ پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔

گزشتہ روز گلگت میں پارلیمانی امن کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اجلاس کی صدارت وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کی اور اس میں متعدد وزرا، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان، ہوم سیکریٹری، پولیس چیف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان نے شرکت کی۔

گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جلسوں میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے عقائد اور مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ خطے کی مجموعی صورتحال اور قیام امن کے لیے فوج بلائی جائے گی، علاوہ ازیں بڑے شہروں میں رینجرز، جی بی اسکاؤٹس اور ایف سی کے اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

اعلامیے میں مزید کیا گیا کہ حکومت امن و امان کو برقرار رکھنے اور کسی بھی صورت حال میں سیاحتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے گی۔

اس سلسلے میں محکمہ داخلہ گلگت بلتستان نے فوری طور پر غیر قانونی اجتماعات اور سڑکیں بلاک کرنے پر دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

حکومت نے شہریوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اتحاد اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ہمیں یقین ہے کہ لوگ ایسے شرپسند عناصر کو مسترد کر دیں گے جو خطے میں بھائی چارے اور امن کے خلاف ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے عناصر کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت ان لوگوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے جو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے نفرت پھیلاتے ہیں۔

دریں اثنا اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او ایم) نے کہا کہ گلگت بلتستان میں موبائل انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئی ہیں اور صرف 2-جی سروس چل رہی ہے۔

ایس سی او ایم نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکم پر کیا گیا ہے۔

گلگت بلتستان کی صورت حال پر برطانیہ اور کینیڈا نے اپنے شہریوں کے لیے سفری گائیڈ لائنز جاری کردیں اور گلگت بلتستان کا سفر کرنے سے گریز کی ہدایت کی۔

برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم نے سفری ہدایات اپڈیٹ کردی ہیں، برطانیہ کے وزارت خارجہ کے دولت مشترکہ اور ترقی کے دفتر نے اپنے شہریوں کو سوائے ضروری سفر کے تمام لوگوں گلگت بلتستان کے سفر کی ممانعت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہدایت گلگت بلتستان کی صورت حال، احتجاج اور مظاہروں کی وجہ سے کی گئی ہے۔ .

اسی طرح کینیڈا کے ہائی کمیشن نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ہم نے خطرات کے حامل علاقوں میں پاکستان کا خطہ گلگت بلتستان بھی شامل کرلیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے شہری وہاں کا سفر کرنے سے گریز کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں