اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انسانی حقوق کی معروف کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری کی دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی، جس کے بعد انہیں زنانہ تھانے سے رہا کردیا گیا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ایمان مزاری کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی، ایمان مزاری کی والدہ شیریں مزاری، وکلا زینب جنجوعہ اور قیصر امام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے ایمان مزاری کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 10 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم سنایا۔

بعد ازاں ایمان زینب مزاری کو اسلام آباد کے ویمن پولیس اسٹیشن سے رہا کردیا گیا اور وہ اپنے وکلا کے ہمراہ گھر روانہ ہو گئیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا، جس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کو اگلی سماعت میں عدالت کی معاونت کا حکم دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایمان زینب مزاری کو 2 ہفتے کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا، تاہم اس کے کچھ دیر بعد ہی ان کی درخواست ضمانت پر آج (بروز ہفتہ) ہونے والی سماعت تک دارالحکومت کے خواتین کے تھانے میں رکھنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

ایمان مزاری کے خلاف مقدمات کا پسِ منظر

واضح رہے کہ سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ایمان مزاری کو 20 اگست کو صبح ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد کے ترنول پولیس اسٹیشن اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس اسٹیشن میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔

یہ گرفتاریاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے کے 2 دن بعد کی گئیں، جلسے سے پی ٹی ایم کے رکن علی وزیر اور ایمان مزاری دونوں نے خطاب کیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر زیر گردش جلسے کی ویڈیوز میں مقررین کو جبری گمشدگیوں کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔

دونوں کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے خلاف درج دو مقدمات کی سماعت ہوئی تھی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم نے بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 2 ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

دونوں ملزمان کے خلاف دوسری ایف آئی آر دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کی گئی تھی۔

22 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بغاوت، دھمکانے اور اشتعال پھیلانے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں علی وزیر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ اسی مقدمے میں ایمان زینب مزاری کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

تاہم ایمان مزاری دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج دوسرے مقدمے میں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں تھیں، لہٰذا ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی تھی۔

28 اگست کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بغاوت اور اشتعال پھیلانے کے کیس میں ایمان زینب مزاری اور سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کرلی تھی، تاہم رہائی کے فوری بعد پولیس نے ایمان مزاری کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ ایمان زینب مزاری کو بہارہ کہو میں درج مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔

29 اگست کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ایمان زینب مزاری کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

یکم ستمبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایمان زینب مزاری کو 2 ہفتے کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ سنایا اور ان کی درخواست ضمانت پر 2 ستمبر (بروز ہفتہ) کو سماعت ہونے تک دارالحکومت کے خواتین کے تھانے میں رکھنے کی ہدایت جاری کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں