ملک میں ایک طرف جہاں آسمان کو چھوتی مہنگائی کے باعث لوگ بجلی کے مہنگے بلوں کی ادائیگی کے لیے پریشان ہیں، وہیں سندھ بھر میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد اور زیر علاج لوگ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کئی ضروری ادویات کی شدید قلت کا شکار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درجنوں غیر ضروری ادویات فارمیسی کمپنیوں میں بھی دستیاب نہیں ہیں۔

ضروری ادویات کی قلت مریضوں کے لیے سنگین مسائل کا باعث بن رہی ہے اور بعض صورتوں میں زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایک سرکاری اہلکار نے ڈان کو تصدیق کی کہ صوبہ اہم ادویات کی قلت سے شدید متاثر ہے، جن میں حیاتیاتی مصنوعات، ویکسینز، کینسر کے علاج کے لیے امیونوگلوبلینز، ذیابیطس کے علاج کے لیے انسولین اور دیگر کئی ادویات ہیں جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔

ایک صنعتی ذرائع نے امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو درآمدات میں کمی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’صرف ضروری ادویات ہی نہیں، درجنوں غیر ضروری ادویات بھی پاکستان بھر کی فارمیسیز پر دستیاب نہیں ہیں کیونکہ مینوفیکچررز نے ایکٹو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس یا ادویات کی تیاری کے لیے خام مال کی درآمد روک دی ہے یا کم کر دی ہے۔‘

ذرائع نے مزید کہا کہ روپے کی قدر میں کمی اور امریکی ڈالر میں اضافے کے باعث درآمد کنندگان نے تیار سامان اور ادویات کے خام مال کی درآمد بند کر دی ہے۔

جعلی ادویات

ان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں، مارکیٹ میں اسمگل شدہ اور جعلی ادویات آگئی ہیں جو افغانستان، ایران اور بھارت سے لائی جارہی ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سی ادویات درجہ حرارت سے حساس ہوتی ہیں، بہت سی ضروری ادویات کو کولڈ چین کے انتظام کے بغیر عام ٹرکوں میں اسمگل کیا جا رہا ہے۔

کولڈ چین کا مطلب ادویات کی تیاری کے مقام سے لے کر جہاں تک ان کو پہنچایا جاتا ہے سفر کے دوران ان کے درجہ حرارت کو بلاتعطل کنٹرول کرنا ہے۔

ماہرین نے ڈان کو بتایا کہ اگر کولڈ چین کو صحیح طریقے سے برقرار نہیں رکھا گیا تو، ویکسین کا اثر ختم ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ویکسین کی ناقابل استعمال فراہمی ہوتی ہے، جو انہیں بیکار کر دیتی ہے۔

ایک مارکیٹ سروے سے پتا چلتا ہے کہ مریض اور ان کے اہل خانہ ضروری ادویات جیسے انسولین، اینٹی ڈی امیونوگلوبلین، کینسر کے علاج کی ادویات اور کئی دیگر اہم ادویات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جن کے متبادل مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔

ایک خوردہ فروش نے کہا کہ بڑھتے ہوئے بحران کے باعث لوگ بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں سے زیادہ قیمتوں پر ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔

حکومت نے قلت کو تسلیم کرلیا

صوبے بھر میں ضروری اور جان بچانے والی ادویات کی قلت کا اعتراف کرتے ہوئے سندھ کے محکمہ صحت کے حکام نے ادویات کی قلت کے بحران اور ادویات کی اسمگلنگ کے خطرے پر قابو پانے کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سرکاری عہدیداروں نے متعلقہ حکام سے 48 گھنٹے میں کارروائی کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

چیف ڈرگ انسپکٹر کو لکھے گئے خط میں سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ نے حالیہ قلت کو ریٹیلرز اور ہول سیلرز کی بلیک مارکیٹ اور ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

عوامی مصائب کو کم کرنے کے لیے ضروری اور جان بچانے والی ادویات کی قلت اور بلیک مارکیٹ سے متعلق ’خطرہ کنٹینمنٹ اقدامات‘ کے ایک حصے کے طور پر اوپن مارکیٹ کے آؤٹ لیٹس پر کارروائی کے ساتھ سخت نگرانی کرنے والی تمام متعلقہ ٹیموں کو فوری طور پر فعال کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ 48 گھنٹوں کے اندر متعلقہ وزیر اور سیکریٹری صحت کے دفتر میں پیش کی جائے۔

اگرچہ حکام نے بلیک مارکیٹ اور ذخیرہ اندوزی کو قلت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، لیکن فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے ذرائع نے بتایا کہ روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی اور درآمدی ادویات پر حالیہ 4 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ موجودہ بحران کا ذمہ دار ہے۔

مثال کے طور پر ایک امیونوگلوبلین، جو چند ہفتے پہلے تک 6 ہزا روپے میں دستیاب تھی وہ اب 14 ہزار سے 16 ہزار روپے کے درمیان فروخت ہو رہی ہے۔

بلیک مارکیٹ کرنے والے اپنے پاس موجود اسٹاک مہنگے داموں پر فروخت کر رہے ہیں، لیکن کوئی بھی مریضوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کو تیار نہیں۔

سندھ کے نگراں وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے ادویات کی درآمد اور پیداوار متاثر ہوسکتی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جنہیں صوبائی سطح پر درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صورتحال کو کچھ حد تک بہتر کیا جاسکے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ روپے کی قدر میں کمی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

نگران وزیر نے کہا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اقدامات ہمارے مینڈیٹ کے تحت آتے ہیں لیکن کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو وفاقی حکومت کے ماتحت آتے ہیں لیکن ہم بلیک مارکیٹ اور مصنوعی قلت کو روک سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اتوار کے روز بیک ٹو بیک میٹنگز کی صدارت کی اور محکمہ صحت کو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرنے کی واضح ہدایات دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ان خطوط پر بہتر ہم آہنگی اور تعاون کے لیے آج وفاقی وزیر سے بھی بات کروں گا۔

تبصرے (0) بند ہیں