پیپلزپارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے لطیف کھوسہ، اعتزاز احسن و دیگر ناراض رہنما مدعو

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2023
دونوں رہنماؤں کو پارٹی کے گزشتہ سی ای سی اجلاس میں بھی مدعو کیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز/وسیم ریاض
دونوں رہنماؤں کو پارٹی کے گزشتہ سی ای سی اجلاس میں بھی مدعو کیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز/وسیم ریاض

عام انتخابات کے لیے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی تیاریاں جاری ہیں، پیپلز پارٹی نے بھی خود کو دوبارہ منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کل جمعرات (14 ستمبر) کو لاہور میں ہونے والے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس میں پارٹی کے تمام ناراض رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قانونی پیچیدگیوں کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کی قربت اور حمایت کرنے پر پیپلزپارٹی کے 2 مرکزی قائدین، سردار لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن سے پارٹی کا اختلاف رہا ہے۔

دونوں رہنماؤں کو پارٹی کے گزشتہ سی ای سی اجلاس میں بھی مدعو کیا گیا تھا، اعتزاز احسن اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے جبکہ سردار لطیف کھوسہ نے شرکت سے گریز کیا تھا۔

اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن کو سی ای سی اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے جو 14 ستمبر کو ہو گا۔

قبل ازیں لطیف کھوسہ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں بیان دینے پر شوکاز نوٹس بھی جاری کیا جاچکا ہے لیکن پارٹی رہنماؤں نے بتایا کہ لطیف کھوسہ اب بھی سی ای سی کے رکن ہیں۔

اجلاس میں انہیں مدعو ضرور کیا گیا ہے لیکن بظاہر اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ لطیف کھوسہ اجلاس میں شرکت کریں گے، ان کے بیٹے خرم کھوسہ (جو خود بھی ایک وکیل ہیں) نے بتایا کہ ہمیں دعوت نامہ موصول ہوا ہے لیکن ہم اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ ہم عدالتی کیسز میں مصروف ہوں گے۔

لطیف کھوسہ اس معاملے پر تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں تھے، خرم کھوسہ نے مزید کہا کہ ہم پیشہ ور وکیل ہیں اور ہماری ترجیح ہمارے کیسز ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ اعتزاز احسن اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں، تاہم انہوں نے 25 اگست کو ہونے والے پارٹی کے گزشتہ سی ای سی اجلاس میں شرکت کی تھی۔

پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کے مطابق اعتزاز احسن گزشتہ اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اصرار کیا کہ اگر وہ اجلاس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو ذاتی طور پر شرکت کریں۔

اجلاس کا وقت

پارٹی کے مطابق اس اجلاس میں مجموعی سیاسی صورتحال اور اگلے عام انتخابات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پی ڈی ایم اتحاد میں شامل اتحادی الگ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے انتخابات کی تیاریوں کے لیے کمر کستے ہی بظاہر راہیں جدا کر لی ہیں، دریں اثنا سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو وطن واپس آجائیں گے، ان کے اس اعلان سے پیپلزپارٹی کے سی ای سی اجلاس کے انعقاد کا وقت مزید دلچسپ ہوگیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے بھی بالواسطہ طور پر نواز شریف کو غیرضروری رعایتیں ملنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ایک شخص کے لیے تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ (برابری کا میدان) نہیں دیا جا رہا ہے۔

نگران کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے قریبی سمجھے جانے والے افراد کی بڑھتی تعداد پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو وفاقی کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قریبی سمجھے جانے والے 3 دیگر افراد، ڈاکٹر توقیر شاہ، سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری احد چیمہ اور جواد سہراب ملک پہلے ہی نگران کابینہ کا حصہ ہیں۔

مصالحت

پیپلز پارٹی اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے کیونکہ بلاول بھٹو زرداری الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر اپنے والد کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے نظر نہیں آرہے۔

ایک حالیہ تبصرے میں بلاول بھٹو زرداری نے اس بات کی تصدیق کی کہ اختلاف رائے موجود ہے اور وہ اس حوالے سے سی ای سی اجلاس میں مصالحت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔

گزشتہ ماہ اس اجلاس کی صدارت بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرداری نے کی تھی، اجلاس میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

تاہم آصف زرداری بظاہر پارٹی کی لائن کے خلاف چلے گئے اور اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں الیکشن کے اس نکتہ نظر کی حمایت کی گئی کہ انتخابات نئی ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کی بنیاد پر حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد کرائے جائیں۔

9 ستمبر کو بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد کے اس بیان کو اعلانیہ طور پر مسترد کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ جس کسی کو بھی پارٹی پالیسی پر اعتراض ہے اسے متعلقہ فورم پر اٹھانا چاہیے، چند روز میں لاہور میں سی ای سی کا اجلاس منعقد ہونا ہے، اگر کسی کی یہ رائے ہے تو اسے وہاں شیئر کرے۔

انہوں نے کہا کہ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ 90 روز کے اندر انتخابات کا مطالبہ کرنا پارٹی کا فیصلہ تھا، ہم دونوں نے مشترکہ طور پر سی ای سی اجلاس کی صدارت کی جہاں ہمارے قانونی ماہرین نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آئین 90 روز کے اندر انتخابات کا مطالبہ کرتا ہے۔

خیال رہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آصف زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں، تاہم پارٹی ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ پارٹی اجلاسوں میں بھی ان دونوں کے درمیان اختلاف دیکھا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں