خیرپور: کمسن گھریلو ملازمہ قتل کیس، ’پیر‘ کی ضمانت منظور، بیوی کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2023
جسٹس محمود اے خان اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے درخواست ضمانت پر سماعت کی — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
جسٹس محمود اے خان اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے درخواست ضمانت پر سماعت کی — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد سرکٹ بینچ نے رانی پور میں حویلی میں قتل کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ فرو کے کیس میں مرکزی ملزم پیر سید فیاض شاہ کی 26 ستمبر تک 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض حفاظتی ضمانت منظور کرلی جب کہ ان کی اہلیہ حنا شاہ کی ضمانت مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمود اے خان اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے نوٹ کیا کہ حنا شاہ کے وکیل کو پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا کہ ان کی درخواست پر غور کیسے کیا جا سکتا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ اس سے قبل 17 اگست کو سکھر بینچ سے رجوع کر کے سات روز کے لیے ضمانت لے چکی تھیں لیکن وہ ضمانت کی مدت کے دوران ریلیف حاصل کرنے کے لیے مناسب فورم سے رجوع کرنے میں ناکام رہی۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمہ نے بظاہر دی گئی رعایت کا غلط استعمال کیا، اس لیے عدالت میں جمع کرائی گئی ضمانت عدم تعمیل کی وجہ سے پہلے ہی ضبط کر لی گئی تھی۔

بینچ نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے 26 ستمبر کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس وقت تک فیاض شاہ کو تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 34، 370، 374، 328 ۔اے، 506، 171، 311، 376 (3)، 377، سندھ پرہیبیشن آف ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 2017 کے سیکشن 3، 14 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6، 7 کے تحت درج جرم میں گرفتار نہ کیا جائے۔

درخواست گزاروں نے درخواست ضمانت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف درج ایف آئی آر من گھڑت اور مقامی پولیس اور شکایت کنندہ کی بدنیتی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست دہندگان کو ہراساں کرنے، ذلیل کرنے، گرفتار کرنے اور حراست میں لینے کے مقصد سے یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ مبینہ واقعہ 14 اگست 2023 کو پیش آیا تاہم ایف آئی آر 2 روز کی تاخیر کے بعد 16 اگست کو درج کی گئی اور ایف آئی آر میں اس تاخیر کی کوئی معقول وضاحت بھی نہیں کی گئی۔

وکیل نے کہا کہ فیاض شاہ کو ابتدائی طور پر ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا تھا، بعد میں پولیس نے ان کا نام شامل کیا۔

انہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ نے ’سنی سنائی باتوں‘ کی بنیاد پر کہانی بیان کی اور ایف آئی آر میں فاطمہ عرف سایا فرو کے قتل میں درخواست گزاروں کے کسی خاص کردار کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی لیکن شکایت کنندہ اس شخص کو شناخت کرنے میں ناکام رہا جس کے ذریعے فوٹیج وائرل ہوئی۔

وکیل نے مزید کہا کہ حنا شاہ کا تعلق ایک معزز گھرانے سے ہے اور وہ اس طرح کے جرم کے ارتکاب کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے غلط سیکشنز کا اطلاق کیا، ان ملزمان کا کیس کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں اور ایک اعلیٰ پولیس اہلکار کی خواہش پر ان کو کیس میں شامل کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 30 اگست کو سوبھو ڈیرو کے سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے جوڈیشل مائنڈ کا اطلاق کیے بغیر تفتیشی افسر کی درخواست پر کیس میں اے ٹی اے کی دفعات شامل کرنے کا حکم دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں