پیپلز پارٹی کی سینیٹ اجلاس بلانے کی ایک اور کوشش ناکام

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2023
مسلم لیگ (ن) کے ایک قانون ساز نے اعتراف کیا کہ اس مرحلے پر سینیٹ اجلاس پارٹی کے لیےشرمندگی کا باعث بن سکتا ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کے ایک قانون ساز نے اعتراف کیا کہ اس مرحلے پر سینیٹ اجلاس پارٹی کے لیےشرمندگی کا باعث بن سکتا ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے ملک کے ایوان بالا کا اجلاس بلانے کی ایک اور کوشش ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیش رفت سے متعلق باخبر ذرائع کی جانب سے مطلع کیا گیا ہے۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر جماعتوں کے 6 میں سے پانچ سینیٹرز نے 18 ستمبر کی ریکوزیشن سے اپنے دستخط واپس لے لیے ہیں، اس مجوزہ اجلاس کا مقصد ملک میں آسمان کو چھوتی مہنگائی اور بجلی کے بھاری بلوں پر بحث و مباحثہ کرنا تھا جب کہ اس حوالے سے عوام میں شدید تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

پی پی پی کے ذرائع نے پس منظر میں جاری مشکوک سرگرمیوں پر سوالات اٹھائے ہیں اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ان کے رابطوں سے متعلق سرکاری جواب طلب کیا ہے اور ان لوگوں کے نام ظاہر کرنے کا کہا ہے جنہوں نے ریکوزیشن سے اپنے دستخط واپس لیے ہیں۔

جن پانچ ارکان نے مبینہ طور پر اپنی قیادتوں کی جانب سے باز پرس کے بعد اپنے دستخط واپس لیے ان میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی سعدیہ عباسی، بی این پی-ایم سے تعلق رکھنے والے محمد قاسم، پی کے ایم اے پی سے تعلق رکھنے والی عابدہ عظیم اور اے این پی سے تعلق رکھنے والے حاجی ہدایت اللہ اور عمر فاروق شامل ہیں۔

ریکوزیشن پر پی پی پی کے تمام 21 سینیٹرز اور سینیٹر شمیم آفریدی نے دستخط کیے تھے جو 2021 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔

مجموعی طور پر 28 سینیٹرز نے ریکوزیشن پر دستخط کیے تھے اور پانچ اراکین کی جانب سے دستخط واپس لینے کے بعد یہ تعداد کم ہو کر 23 ہو جائے گی جو کہ سیشن طلب کرنے سے متعلق ریکوزیشن کے لیے مطلوبہ تعداد یعنی ایک چوتھائی اراکین سے کم ہے۔

نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ انہوں نے اپنے دستخط واپس نہیں لیے، انہوں نے دستخط واپس لیے جانے کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور بتایا کہ پانچ سینیٹرز نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اپنے دستخط واپس لے لیے ہیں۔

اس کے ایک روز بعد سینیٹر تاج حیدر نے سیکریٹری سینیٹ کو خط لکھا جس میں انہوں نے صادق سنجرانی کی کال کا حوالہ دیتے ہوئے دستخط واپس لینے کے بارے میں آگاہ کیا۔

اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی طرف سے تمام دستخط کنندگان سے ان کے دستخط حاصل کرنے اور سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرانے سے قبل تصدیق کی تھی کہ وہ بعد کے مرحلے میں اپنے دستخط واپس نہیں لیں گے۔

ڈان کو موصول خط کے مطابق سینیٹر تاج حیدر نے لکھا کہ مجھے معزز چیئرمین سینیٹ کی جانب سے دی گئی معلومات کہ دستخط کنندگان میں سے پانچ نے اپنے دستخط واپس لے لیے ہیں، میرے اور میری پارٹی کے لیے بہت حیران کن ہے، برائے کرم مجھے ان اراکین کے نام بتائے جائیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی تاحال سرکاری جواب کی منتظر ہے، پی پی پی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام سینیٹرز کے علاوہ دیگر جماعتوں کے تین سینیٹرز نے بھی کہا کہ انہوں نے اپنے دستخط واپس نہیں لیے ہیں۔

رابطہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے ایک قانون ساز نے اعتراف کیا کہ اس مرحلے پر سینیٹ اجلاس پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ریلیف نہیں دے سکی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف معاہدے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قیمتوں میں اضافے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں