پنجاب حکومت نے بینائی کو متاثر کرنے والے انجیکشن پر پابندی لگا دی

24 ستمبر 2023
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر سربراہی محکمہ صحت اور ڈاکٹروں کا اہم اجلاس منعقد کیا گیا— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر سربراہی محکمہ صحت اور ڈاکٹروں کا اہم اجلاس منعقد کیا گیا— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

پنجاب حکومت نے صوبے میں متعدد مریضوں کی بینائی کو نقصان پہنچانے کا سبب بننے والے مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن کے معیار کی جانچ تک اس کی فروخت اور استعمال پر دو ہفتوں کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

ہفتے کے روز، پنجاب حکومت نے صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں مبینہ طور پر مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن ’آواسٹن‘ کے لگائے جانے کے بعد مریضوں کی بینائی ضائع ہونے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی کی سربراہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر اسد اسلم خان بطور کنوینر کریں گے جبکہ اس کے دیگر اراکین میں ڈائریکٹر جنرل ڈرگز کنٹرول محمد سہیل، میو ہسپتال کے ڈاکٹر محمد معین، لاہور جنرل ہسپتال کی ڈاکٹر طیبہ اور سروسز ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر محسن شامل ہیں۔

رپورٹس کے مطابق لاہور، قصور اور جھنگ کے اضلاع میں ذیابیطس کے مریضوں کو ریٹینا کو پہنچنے والے نقصان کو دور کرنے کے لیے آواسٹن کے انجیکشن لگائے گئے تاہم یہ انجیکشن الٹا بدترین انفیکشن کا باعث بنا جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور کے بھائی اور ان کے دوست سمیت تقریباً 12 مریضوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے آج سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ محکمہ صحت اور ڈاکٹروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا تاکہ آواسٹن کے استعمال سے ضائع ہونے والی بینائی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک ایکشن پلان بنایا جا سکے۔

منصوبے کے مطابق نان اسٹیرل انجیکشن کی دستیابی کے ذمہ دار ڈرگ انسپکٹرز کے خلاف فوری سخت کارروائی کی جائے گی۔

محسن نقوی نے کہا کہ حکومت پنجاب تمام مریضوں کا مفت علاج کرے گی اور فوری تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیارات کی حامل انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پولیس کو ذمہ داروں کی گرفتاری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انجیکشن کو مارکیٹ سے واپس منگوا لیا گیا ہے، نگران وفاقی وزیر صحت

اس سے قبل نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان نے کہا تھا کہ مبینہ طور پر پنجاب میں متعدد مریضوں کی بینائی کو نقصان پہنچانے کا باعث بننے والے مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن کو مارکیٹ سے واپس منگوا لیا گیا ہے جبکہ سپلائرز کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر صحت نے کہا تھا کہ ملتان، قصور، لاہور اور صادق آباد سے انجیکشنز کے حوالے سے رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر جمال ناصر نے ہمیں بتایا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں، 5 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو 3 روز میں رپورٹ پیش کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آنکھوں کو متاثر کرنے والے انجیکشن کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا ہے، جعلی انجیکشن فراہم کرنے والے 2 سپلائرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، اس کی شفاف تحقیقات ہوں گی اور عوام کے سامنے نتائج پیش کیے جائیں گے۔

ندیم جان نے مزید کہا تھا کہ تحقیقات کے بعد قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کی جائے گی اور ہم یہ یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ جس سے بھی یہ غلطی ہوئی ہے ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مریضوں کا مداوا بھی کریں گے، جو بھی اس کے متاثرین ہیں ہم انہیں بھرپور تعاون فراہم کریں گے تاکہ ان کے نقصان کا ازالہ ہو، انہیں بہترین طبی سہولیات مہیا ہوں۔

ڈینگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر صحت نے کہا تھا کہ تاحال ڈینگی کی صورتحال قابو میں ہے، پنجاب میں اب تک ساڑھے 3 ہزار کے لگ بھگ کیسز سامنے آچکے ہیں، اس میں پچھلے سال کے مقابلے میں خاطر خواہ کمی آئی ہے، پچھلے سال اس وقت تک 10 ہزار کیسز سامنے آچکے تھے۔

نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان نے پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کی— فوٹو: ڈان نیوز
نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان نے پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کی— فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈینگی کے انسداد کے لیے اٹھائے جانے والے اقدمات کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ڈینگی اسی رفتار سے نہیں پھیل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں اب تک ڈینگی کے سبب کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے، 15 اکتوبر تک ڈینگی کے عروج کا موسم رہتا ہے اس کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے، ان شا اللہ اگر ڈینگی کی یہی صورتحال جاری رہی تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

مارکیٹ میں ادویات کی قلت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ندیم جان نے کہا تھا کہ مارکیٹ میں ٹیمیں 24 گھنٹے مانیٹرنگ کر رہی ہیں، مارکیٹ کا جائزہ لے رہی ہیں اور تاحال کوئی جائز اور معقول شکایت ان کی نظر سے نہیں گزری۔

متاثرہ مریضوں کی تعداد 14 سے 20 کے درمیان معلوم ہوتی ہے، ڈاکٹر جمال ناصر

دریں اثنا نگران وزیر صحت پنجاب نے کہا تھا کہ یہ انجیکشن ذیابیطس کے مریضوں کو آنکھوں کی سوجن کے علاج کے لیے دیا جاتا ہے، یہ کافی عرصے سے استعمال ہوتا آرہا ہے لیکن اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ اس انجیکشن پر بھاری منافع کمایا جا رہا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ انجکشن 100 ایم جی کا ٹیکا ہے جو ایک ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی نے تیار کیا اور ایک معروف ادارہ اسے مارکیٹ میں تقسیم کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ 100 ایم جی کا ٹیکا ہوتا ہے لیکن اسے آنکھوں کے لیے تقسیم کیا جاتا ہے کیونکہ صرف 1.2 ایم جی کی خوراک درکار ہوتی ہے، ظالم لوگ اس کے عوض 1200 روپے وصول کرکے ایک ایک انجیکشن پر ایک ایک لاکھ روپیہ کما رہے تھے۔

ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے پوری کھیپ کو مارکیٹ سے ہٹا دیا گیا ہے، ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جب تک رپورٹس واضح نہیں ہو جاتیں اسے فروخت نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے انسپکٹرز سے کہا ہے کہ وہ اس انجیکشن کو مارکیٹ سے ضبط کر لیں، نوید اور حافظ بلال نامی 2 سپلائرز کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کیسز صرف لاہور اور قصور تک محدود نہیں، ملتان اور صادق آباد سے بھی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا تھا کہ حکومتِ پنجاب کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا یہ اسٹیرلائزیشن کا مسئلہ تھا یا انجیکشن کی پوری کھیپ میں ہی کوئی مسئلہ تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکام انجیکشن درآمد کرنے کے لائسنس، تقسیم کے عمل اور انجیکشن لگانے والے ڈاکٹروں کے اہلیت کے معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں، لہٰذا جب تحقیقات مکمل ہو جائیں گی اور رپورٹ سامنے آئے گی تب ہم حتمی رائے دینے کی پوزیشن میں ہوں گے، تاحال متاثرہ مریضوں کی جو تعداد لگ رہی ہے وہ تقریباً 14 سے 20 کے درمیان ہے۔

تاہم انہوں نے کوئی ٹھوس اعداد و شمار بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکام کو انفرادی طور پر ہر مریض کا انٹرویو لینا ہوتا ہے، اس کے بعد ہی اصل تعداد کی باضابطہ طور پر تصدیق ہوسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں