طالبان شہروں کی نگرانی کیلئے امریکی منصوبے کی پیروی کے خواہاں

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2023
حکام دارالحکومت کابل بھر میں پہلے سے ہی موجود ہزاروں کیمروں میں مزید  اضافے کی کوشش کر رہے ہیں—فوٹو:رائٹرز
حکام دارالحکومت کابل بھر میں پہلے سے ہی موجود ہزاروں کیمروں میں مزید اضافے کی کوشش کر رہے ہیں—فوٹو:رائٹرز

طالبان افغان شہروں کی نگرانی کے لیے بڑے پیمانے پر کیمروں کا نیٹ ورک بنا رہے ہیں جب کہ اس مقصد کے لیے وہ 2021 کے انخلا سے قبل امریکیوں کی جانب سے تیار کردہ منصوبے کو استعمال کرسکتے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ بات وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے بتائی جب کہ حکام دارالحکومت کابل بھر میں پہلے سے ہی موجود ہزاروں کیمروں میں مزید اضافے کی کوشش کر رہے ہیں۔

طالبان انتظامیہ عوامی طور پر کہتی ہے کہ اس کی توجہ سیکیورٹی کی بحالی اور افغان شہروں میں کئی بڑے حملوں کا دعویٰ کرنے والے عسکریت پسند گروپ داعش پر قابو پانے پر مرکوز ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان انتظامیہ نے اس منصوبے سے متعلق ممکنہ تعاون کے بارے میں چینی ٹیلی کام آلات بنانے والی کمپنی ہواوے سے بھی مشاورت کی ہے۔

ان ملاقاتوں کے حوالے سے جاری پریس ریلیز کے مطابق عالمی عسکریت پسند گروپوں کے حملوں کو روکنا، طالبان، امریکا اور چین سمیت کئی ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت کا مرکزی نکتہ ہے لیکن کچھ تجزیہ کاروں نے پروگرام کی فنڈنگ سے متعلق حکومت کی صلاحیت پر سوال اٹھایا ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ وسائل کو مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

طالبان امریکی منصوبے کے حصول سمیت کس طرح بڑے پیمانے پر نگرانی کو بڑھانے اور اس کا انتظام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کی تفصیلات پہلے رپورٹ نہیں کی گئی ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے رائٹرز کو بتایا کہ کابل اور دیگر اہم مقامات پر بڑے پیمانے پر کیمروں کی تنصیب نئی سیکیورٹی حکمت عملی کا حصہ ہے جسے مکمل طور پر نافذ ہونے میں چار برس کا عرصہ لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم کابل سیکورٹی میپ پر کام کر رہے ہیں جسے سیکورٹی ماہرین مکمل کر رہے ہیں جس میں کافی وقت لگ رہا ہے، ہمارے پاس پہلے ہی دو نقشے موجود ہیں جن میں ایک امریکا نے گزشتہ حکومت کے لیے بنایا جب کہ دوسرا نقشہ ترکیہ نے تشکیل دیا تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکا طالبان کے ساتھ ”شراکت داری“ نہیں کر رہا اور اس نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ بنیں۔

عبدالمتین قانی نے کہا کہ طالبان نے اگست میں ہواوے کے ساتھ ممکنہ نیٹ ورک کے بارے میں سادہ گفتگو کی لیکن کوئی معاہدہ یا ٹھوس منصوبہ طے نہیں پایا تھا۔

بلومبرگ نیوز نے اگست میں بات چیت سے واقف شخص کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ہواوے نے طالبان کے ساتھ نگرانی کے نظام کی تنصیب کا “زبانی معاہدہ کیا۔

ہواوے نے ستمبر میں رائٹرز کو بتایا کہ میٹنگ کے دوران کسی منصوبے پر بات نہیں کی گئی۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ وہ مخصوص بات چیت سے آگاہ نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ چین نے ہمیشہ افغانستان میں امن اور تعمیر نو کے عمل کی حمایت کی ہے اور اس سسلسلے میں عملی تعاون کے لیے چینی کاروباری اداروں کی حمایت کی ہے۔

طالبان کے مطابق کابل اور دیگر شہروں میں62 ہزار سے زیادہ کیمرے نصط ہیں جن کی نگرانی مرکزی کنٹرول روم سے کی جاتی ہے، سابق حکومت کے مطابق کابل میں کیمرہ سسٹم آخری بار 2008 میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا جس میں سیکیورٹی کے لیے مغربی ممالک کی قیادت میں موجود عالمی افواج پر بہت زیادہ انحصار کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے حامیوں اور حکومت کے مخالفین کو تشویش ہے کہ نگرانی میں اضافے سے سول سوسائٹی کے ارکان اور مخالفین کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والے میٹ محمودی نے کہا کہ قومی سلامتی کی آڑ میں بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام کا نفاذ وہ ٹیمپلیٹ سیٹ کرتا ہے جس کے تحت طالبان بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والی اپنی سخت پالیسیوں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

طالبان اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ نگرانی کا جدید نظام افغان شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں