غیرقانونی طریقے سے پاکستان آنے والے بھارتی شہریوں کا وطن واپسی سے انکار

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2023
بھارت سے آنے والے اسحٰق امیر اور ان کے والدی محمد حسنین— فوٹو: ڈان نیوز
بھارت سے آنے والے اسحٰق امیر اور ان کے والدی محمد حسنین— فوٹو: ڈان نیوز

گزشتہ ہفتے مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے کراچی آنے والے دو بھارتی شہریوں نے کہا ہے کہ ہم جیل جانے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنے آبائی ملک واپس نہیں جانا چاہتے۔

کراچی پولیس کے مطابق محمد حسنین اور اسحٰق امیر مبینہ طور پر پاک افغان سرحد کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے تاکہ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کا نشانہ بننے اور اپنی جانوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر یہاں پناہ حاصل کی جا سکے، اس کے بعد انہوں نے مبینہ طور پر کراچی کی راہ لی۔

کراچی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (جنوبی) اسد رضا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ باپ بیٹے کی جوڑی پر جاسوس ہونے کا شبہ نہیں بلکہ انہیں بھارت میں مذہبی تعصب اور ظلم و ستم کا شکار سمجھا جا رہا ہے۔

اسد رضا نے کہا کہ دونوں بھارتی شہریوں کو عارضی طور پر ایدھی شیلٹر ہوم میں رکھا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ یہاں پناہ لینا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ آرٹلری گراؤنڈ پولیس اسٹیشن سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں افراد نے 25 ستمبر کو کراچی پریس کلب کے باہر بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔

پولیس کے بیان میں باپ بیٹے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ہم جیل جانے کے لیے تیار ہیں لیکن بھارت واپس نہیں جائیں گے، اگر ہمیں ملک بدر کیا گیا تو ہمیں بھارتی سرزمین پر قدم رکھتے ہی مار دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ہمیں مارنا چاہتے ہیں تو پاکستان میں مار ڈالیں، کم از کم ہماری تدفین کے لیے کچھ زمین مل جائے گی، بھارت میں ہمیں یہ بھی نہیں ملے گا۔

بیان میں دونوں بھارتی شہریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ہم نے سندھ پولیس چیف کے دفتر کا دورہ کیا تھا لیکن ہم ان کے تحفظات دور نہیں کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایدھی نے ہمیں چار دن پناہ دی اور آج ہمیں کہیں اور شفٹ کر دیں گے، ہماری سرکاری بھارتی دستاویزات ایدھی کے عملے کے پاس ہیں۔

پولیس نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ بھارتی شہریوں نے پاکستان میں داخل ہونے سے قبل نئی دہلی کے علاقے گوتم پوری میں اپنی رہائش گاہ سے نکل کر 14 دن کا سفر کیا۔

گزشتہ روز پریس کلب کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھارت سے آنے والے حسنین نے کہا تھا کہ میں اور میرا بیٹا 5 ستمبر کو نئی دہلی سے متحدہ عرب امارات کے لیے روانہ ہوئے تھے جہاں ہم ویزے کے لیے افغانستان کے سفارت خانے پہنچے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پھر ہم نے کابل کا سفر کیا جہاں سے ہم قندھار گئے، قندھار کی سرحد سے لوگ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، ہم نے ایک رات وہیں گزارنے کے بعد پاکستان کا سفر جاری رکھا۔

حسنین نے مزید کہا کہ پاکستان میں داخل ہونے کے بعد ہم نے ایک شخص کو کراچی پہنچانے کے لیے 60ہزار روپے ادا کیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں رپورٹ نہیں کیا جاتا، جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے، اخبارات، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سبھی نے مودی کا ساتھ دیا ہے۔

حسنین نے کہا کہ میڈیا میں ایک بہت چھوٹا طبقہ ہے جو مسلمانوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتا ہے، ان کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی چیز پر احتجاج کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کے گھر کو یہ کہہ کر بلڈوز کر دیتے ہیں کہ یہ غیر قانونی طور پر بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ملک چھوڑنے والا پہلا شخص نہیں ہوں، بہت سے میرے سامنے ہیں لیکن وہ امیر تھے تو یورپ، امریکا، برطانیہ، جرمنی یا کینیڈا میں غیر ملکی شہریت لے سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اچھی حیثیت کے حامل لوگ ترکی، آذربائیجان یا ملائیشیا ہجرت کر گئے، میری اتنی حیثیت نہیں کیونکہ میرے پاس پیسے کم تھے۔

ایک سوال کے جواب میں حسنین نے مزید کہا کہ ہمیں کراچی میں ہوٹل کا کمرہ دینے سے انکار کیا گیا کیونکہ ہمارے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا۔

اس موقع پر حسنین کے بیٹے اسحٰق امیر نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے والد کی عمر 70 سال اور میری 31 سال ہے، جب ہم کراچی پہنچے تو پہلے اورنگی ٹاؤن میں رکے اور اس کے بعد ہم براہ راست آئی جی سندھ کے دفتر گئے۔

انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے، ہم نے اپنا سامان ایک طرف رکھا، اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ہم یہاں ہتھیار ڈالنے کے لیے آئے ہیں، جب ہم سے پوچھا گیا کہ ہم کس لیے ہتھیار ڈال رہے ہیں تو ہم نے بتایا کہ ہم بھارت سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں۔

اسحٰق امیر نے تصدیق کی کہ انہوں نے پولیس سے درخواست کی کہ پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے آنے کی پوری کہانی بتانے کے بعد انہیں پناہ دی جائے۔

پولیس نے دونوں افراد کو ایدھی شیلٹر ہوم میں جانے کی ہدایت کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں