لندن میں بھارتی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ ایک ’شرمناک واقعے‘ کی اطلاع ملی ہے کہ ایک اعلیٰ سفارت کار کو گلاسگو میں گوردوارے میں مظاہرین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈان اخبار میں شائع ’غیر ملکی خبر رساں اداروں‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بیرون ملک مقیم سکھ برادریوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات زیر بحث ہیں، اور نئی دہلی پر اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک سکھ بلاگر کو گرفتار اور مبینہ تشدد کرنے اور کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

لندن میں بھارتی سفارتی مشن نے کہا کہ برطانیہ میں اس کے ہائی کمشنر وکرم ڈوریسوامی کو کمیونٹی اور قونصلر مسائل پر بات چیت کے لیے جمعہ کو اسکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر میں سکھ مندر یا گوردوارے میں مدعو کیا گیا تھا۔

بتایا گیا کہ لیکن انہیں آمد پر تین افراد کا سامنا کرنا پڑا، جنہیں ’غیر مقامی انتہا پسند عناصر‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ انہوں نے ہائی کمشنر کی گاڑی کو ’پرتشدد طریقے سے کھولنے‘ کی کوشش کی۔

ہائی کمیشن نے دعویٰ کیا کہ سفارت کار دورے کو آگے بڑھائے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے۔

اس الزام پر برطانیہ کی جونیئر وزیر خارجہ اینی میری ٹریولین یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ اس پر ’تشویش‘ ہے۔

انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری ایک بیان میں کہا کہ غیر ملکی سفارت کاروں کی حفاظت اور سیکیورٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور برطانیہ میں عبادت گاہیں سب کے لیے لازمی کھلی ہونی چاہئیں۔

’غلط خبر‘

تاہم اسکاٹش سکھ گروپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا کہ وکرم ڈوریسوامی کے گوردوارے کے سرکاری دورے پر اعتراض کرنے والے پُرامن اور قانونی احتجاج کے حوالے سے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلائی گئی ہیں۔

اسکاٹ لینڈ میں سکھ گروپ نے مزید بتایا کہ سفارت کار ’ہر وقت اپنی گاڑی میں محفوظ رہے اور انہوں نے گوردوارے نہ جانے کا انتخاب کیا اور سکھ برادری کے جائز خدشات کا جواب دینے کے لیے نہیں رکے‘۔

برطانیہ کے میڈیا کے مطابق اسکاٹ لینڈ پولیس نے تصدیق کی کہ وہ جمعہ کو دوپہر کے وقت گوردوارے میں گڑبڑ کی اطلاع پر الرٹ ہوئی۔

ترجمان نے رپورٹ میں بتایا کہ کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے اور مکمل حالات کے تعین کے لیے انکوائری کی جارہی ہے۔

برطانیہ میں تقریباً 5 لاکھ سکھ رہتے ہیں، جبکہ اسکاٹ لینڈ میں بھی ان کی ایک بڑی کمیونٹی ہے، انہوں نے حالیہ برسوں میں اسکاٹ لینڈ کے ایک سکھ بلاگر جگتار سنگھ جوہل کے معاملے پر مہم چلائی ہے۔

جگتار سنگھ بھارت میں 5 برس سے زیرِ حراست ہیں، ان پر دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کی سازش کا حصہ بننے اور قتل کی سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

بھارت اور کینیڈا کے تعلقات پہلے ہی اس وقت تنزلی کا شکار ہیں، کیونکہ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ جون میں بھارت سے الگ سکھ ریاست کی حمایت کرنے والے کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی ملوث ہوسکتی ہے۔

بھارت نے گزشتہ ہفتے جسٹن ٹروڈو کے اعلان کے بعد جوابی کارروائی میں کینیڈین سفارت کار کو ملک بدر کر دیا تھا اور سفری انتباہ جاری کیا اور کینیڈا میں ویزا سروس بند کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں