غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے کا الٹی میٹم، حکام کو ’تاریخی چیلنج‘ درپیش

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2023
پاکستان 1951 کے مہاجرین کنونشن یا 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان 1951 کے مہاجرین کنونشن یا 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

غیر قانونی طور پر مقیم 10 لاکھ سے زائد افغان اور دیگر غیر ملکیوں کو وطن واپس بھیجنے کے لیے رواں ماں کے آخر کی ڈیڈلائن کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکام ایک ساتھ مل کر ایک قابل عمل منصوبہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے جدید دور میں ملک سے بے دخل کرنے کے سب سے بڑے آپریشن میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 27 ستمبر کو خیبرپختونخوا کی ایپکس کمیٹی کی سفارشات پر وفاقی اپیکس کمیٹی نے چند روز قبل تمام غیر قانونی تارکین وطن کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا ہے، ورنہ انہیں قید یا پھر ملک سے بے دخل کر دیا جائے گا، جن میں بڑی تعداد افغان شہریوں کی بھی شامل ہے۔

مختصر ڈیڈ لائن نے ملک بھر میں افغان کمیونٹی میں ہلچل مچا دی ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ ضم شدہ قبائلی اضلاع سمیت خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں۔

اس فیصلے پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے اور حکام پر زور دیا کہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔

اس عمل میں شامل حکام کے ساتھ پس منظر کے انٹرویوز سے انکشاف ہوا کہ حکام غیر متعین تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تر افغانی ہیں۔

ایک عہدیدار نے تسلیم کیا کہ کہ ’یہ ایک بہت بڑا اقدام ہے‘، انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 10 لاکھ یا زائد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے، پکڑنے، انہیں حراستی مراکز میں رکھنے، کھانا کھلانے اور سرحد تک پہنچانے یا پاکستان سے بے دخل کرنے کا بندوبست کرنے کے لیے ایک لاجسٹک پلان اور انسانی و مالی وسائل کی ضرورت ہوگی۔

غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکیوں کی کتنی تعداد؟

اس معاملے کو دیکھنے والے اسلام آباد میں ایک سینئر حکام نے بذریعہ فون ڈان کو بتایا کہ حکومت میں کسی کو بھی پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کی تعداد کا اندازہ نہیں ہے، ہمارے پاس موجود اعداد و شمار اندازے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان میں 21 لاکھ 80 ہزار افغان مہاجرین قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں، اور 07-2006 کی مردم شماری کے مطابق اس میں 13 لاکھ افراد شامل ہیں جن کے پاس رجسٹریشن کارڈز کا ثبوت (پی او آر) موجود ہے، جبکہ 2017 کی رجسٹریشن مہم کے بعد مزید 8 لاکھ 80 ہزار کو افغان سٹیزن کارڈز جاری کیے گئے تھے۔

حکومتی حکام کے مطابق افغانستان میں اگست 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تقریباً 6 لاکھ سے 8 لاکھ افغان شہری پاکستان آئے، ان میں سے کچھ کے پاس درست ویزے تھے، جو اب ختم ہو چکے ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ تین اقسام کے درمیان افغانستان سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ایک غیر متعین تعداد ہے، یہ تعداد 10 لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے، یہ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ سماجی اور اقتصادی نقطہ نظر سے بھی بڑی تشویش کا باعث ہے۔

نصف منصوبہ تیار

حکام نے بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا طویل عرصے سے ایجنڈا ہے، خاص طور پر دسمبر 2014 میں نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد منصوبے بنائے گئے اور حکمت عملی مرتب کی گئی، تاہم انسانی اور مالی وسائل کے ساتھ قابل عمل لاجسٹک منصوبہ تیار کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

حکام نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس طویل مسئلے کے حل کے لیے اب سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، ایک اور حکام نے بتایا کہ یہ توجہ حاصل کر رہا ہے، لیکن ہمیں ایک مناسب منصوبے کی ضرورت ہے، اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2017 میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد کی رجسٹریشن مہم چلائی گئی، جس کے نتیجے میں افغان سٹیزن کارڈز جاری کیے گئے، اس کے بعد انہیں وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔

حکام نے بتایا کہ غیر قانونی رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو وطن واپسی کے کسی بھی منصوبے میں نقشہ سازی، حساسیت، لاجسٹکس اور انسانی اور مالی وسائل کو متحرک کرنا شامل ہونا چاہیے، ایک اور حکام نے بتایا کہ اس وقت یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان 1951 کے مہاجرین کنونشن یا 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ جہاں وہ پی او آر اور اے سی سی رکھنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے پُرعزم ہیں، وہیں لاکھوں مہاجرین بشمول غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد کی موجودگی اب قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں اسے صحیح طریقے سے کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں