ہمیں تو بہت زور کا جھٹکا لگا جب میاں صاحب کو سرخ جوڑے میں دیکھا وہ تو شکر ادا کیا کہ جیکٹ دوسرے رنگ کی تھی گویا نظر بٹو ساتھ رکھا تھا۔ دوسرے ’شوخ‘ کو بغور نہیں دیکھ پائے وہ بھی سرخ پوش تھا۔۔۔

ہم واقعی یہ سمجھے کہ میاں صاحب سرخ پوش تحریک سنبھالنے لندن سے وداع ہورہے ہیں۔ ہم بھی پرجوش ہوگئے کہ اب لال لال لہرائے گا، انقلاب آئے گا، جمہور دشمنوں کو ٹکا کر جواب ملے گا مگر ایئرپورٹ پر نیلے رنگ کو حاوی دیکھ کر ہمارا تو آسمان ہی نیلا ہوگیا۔۔۔ پھر ’الٹے پیروں‘ لندن جانے والے چھوٹے بھائی نے بھی عام معافی کا اعلان کردیا ’بھائی صاحب نے 2017ء کے کرداروں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے‘۔

یہ بڑے ظرف کی بات ہے کہ آپ چھوٹے بھائی سے عفو و درگزر کا درس لے کر انقلاب کو خاموش کردیں۔۔۔ ایک صاحب نے کہا کہ میاں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں بڑے میاں صاحب وہی کریں گے جو دل میں ہے۔

’دل کی بات نہ کرو چوہدری صاحب۔ ہر ایک کے دل میں لیلٰی اقتدار رقص کررہی ہے۔ میاں صاحب الگ نہیں‘ ہم نے دست بستہ عرض کی۔

’آپ لیلٰی کو چھوڑیں۔ یہ دیکھیں کہ جب میاں صاحب کی حکومت تھی تو پیٹرول، آٹے، روٹی، گوشت کی قیمت۔۔۔‘

’آپ بھٹو کے دور کی قیمت بھی تو بتائیں کتنی تھی۔ آپ کے ابّا نے تو پی این اے کی تحریک میں اسٹیج پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ ہم 1972ء کی قیمتیں واپس لائیں گے۔۔۔واپس لائے؟‘ ہم نے ذرا سنجیدگی سے کہا۔

’یہ ماضی بعید کے قصے ہیں۔۔۔‘ وہ حقارت سے بولے جیسے پی این اے کو مسترد کررہے ہوں۔

’2017ء بھی ماضی ہوا۔۔۔ ماضی کو سمجھو چوہدری۔۔۔ پیٹرول کی قیمت وہی کرو جو بھٹو کے دور میں تھی تو مانیں۔۔۔‘ ہم نے آواز میں بیس پیدا کرکے کہا۔

’یہ تم بار بار بھٹو تک کیوں پہنچ جاتے ہو یار‘ وہ زچ ہوگئے۔۔۔ ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا۔

کوئی کچھ بھی کہے۔۔۔ لیکن یہ تو ماننے کی بات ہے کہ لال لال لہرائے یا سبز سویرا آئے۔۔۔ نواز شریف نے 21 اکتوبر کو پاکستان واپسی کا اعلان کردیا ہے اور طلال چودھری کہتے ہیں کہ اتنی خلقت آئے گی کہ مینار پاکستان چھوٹا پڑ جائے گا۔

ہمارے چودھری صاحب کو اس سے اتفاق نہیں وہ کہتے ہیں کہ ’بے نظیر بھٹو کے استقبال کا ریکارڈ توڑنا تھا استقبال تو کرایا نہیں۔ اب تو پی ٹی آئی کے چئیرمین کے مینار پاکستان کے جلسے کا ریکارڈ ہی توڑ دیں۔۔۔ مشکل لگ رہا ہے ہم آپس میں ہی بھڑ گئے ہیں‘۔ چودھری صاحب کے لہجے میں دل کاٹ دینے والی مایوسی تھی۔

سنتے ہیں مینار پاکستان کا جلسہ عبدالعلیم خان نے منظم کیا تھا اور اس شرط پر کہ پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر رات 12 بجے سے پہلے اسٹیج پر شکل نہیں دکھائے گا۔ یہ جلسہ بہت بڑا تھا، داتا دربار تک لوگ ہی لوگ تھے، اس کے بڑے چرچے ہوئے اور اسی کے بعد چئیرمین صاحب کا اقتدار کنفرم ہوا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت تک جلسے کا آرگنائزر ہی پی ٹی آئی میں شامل نہیں تھا۔۔۔ اس سے تو چئیرمین کو بھی اختلاف نہیں کہ ’وہ آیا نہیں اسے لایا گیا‘ تھا۔

لوگ کہتے ہیں کہ مینار پاکستان کو بھرنا بڑی مشکل ہے۔ یہ واقعی چیلینج ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے سے زیادہ لوگ ہوں۔۔۔ اور جلسے میں ’شامل‘بھی ہوں۔

بڑے میاں صاحب کے لیے پہلا مرحلہ حفاظتی ضمانت کا ہے بقول ڈبل ایس (میں نے SS نہیں لکھا) شعیب شاہین سزا یافتہ ’مجرم‘ کو حفاظتی ضمانت نہیں ملتی۔ اب یہ بھی زیادتی ہے کہ آپ سزا یافتہ بھی کہیں اور پھر مجرم بھی۔۔۔ چلیں اگر ضمانت مل جاتی ہے تو یہ ایک نظیر ہوگی جس کی بہت سے لوگ تقلید کریں گے۔۔۔ نہیں ملتی اور جلسے میں رکاوٹ پڑتی ہے تو ’اللہ کے حوالے‘ والی پالیسی بھی متاثر ہوگی اور تعلقات کار بھی۔ لیکن کیا تعلقات کار بنانے والوں نے کوئی ’حفاظتی انتظامات‘ نہیں کیے ہوئے ہوں گے۔۔۔؟ شاید انہوں نے ’زیرو رسک‘ اور لیول پلینگ فیلڈ کے لیگی مطالبات پورے کردیے ہوں۔

میاں صاحب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مزاحمت کا مؤقف چھوڑ کر اگر مفاہمت کی طرف جاتے ہیں تو اس کا مرکزی نقطہ کیا ہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا۔ مفاہمت سے اقتدار مل گیا تو 2017ء کی قیمتیں کیسے واپس آئیں گی؟

جو بھی ہو ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ ’ڈیل‘ کا تاثر ختم کرسکتے ہیں یہ تاثر روزانہ مضبوط ہورہا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہے۔۔۔ کتنے جھوٹے ہیں یہ لوگ۔۔۔

خیر لوگ تو ایسے بھی ہیں جو نواز شریف صاحب کو ’عنقا‘ سمجھتے ہیں۔ یہ عنقا کی کہانی بھی بڑی اساطیری ہے۔۔۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ میاں صاحب ’عنقا‘ ہیں( اس کا مشکل نام قفنس) ہے۔ عنقا 500 سال بعد مرتا ہے پھر جل کر راکھ بنتا ہے اس راکھ سے انڈا پیدا ہوتا ہے اور عنقا پھر جنم لیتا ہے۔

اللہ اللہ۔۔

لیکن یہ طے ہے کہ وہ عنقا ہوں قفنس یا phoenix یہ تاثر لازمی ختم کرنا ہوگا کہ وہ ڈیل کرکے آرہے ہیں۔ اس تاثر کو ختم کیے بغیر ان کا اپنا تاثر خراب ہوتا رہے گا اور کسی طرح وہ منتخب ہوبھی گئے تو دو تین سال بعد پھر باریاں لگیں گی۔

یہ سوال یہاں چھوڑنا ضروری نہیں کہ کیا انتخابات واقعی جنوری میں ہوں گے؟ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ جنوری میں موسم خراب ہوگا، بارش اور برفباری ہورہی ہوگی ہمارے لوگ کس طرح ووٹ دینے جائیں گے؟

یہ سوال واقعی سوچنے کی دعوت دے رہا ہے کہ اس صورتحال میں کیا ہوگا۔ فروری میں تو راستے لازمی بند ہوں گے مارچ میں برف پگھلنی شروع ہوگی۔۔۔اپریل۔۔۔ جون؟ یہ سوچ کر ہی کئی جماعتیں پریشان ہیں کہ اس بار پروجیکٹ کیا ہے؟

ملک میں مسائل بہت ہیں۔ نیا مسئلہ افغان مہاجرین کی واپسی ہے، دہشت گردی ہے، ملکی وسائل میں کمی اور ڈالروں کا قحط ہے، برآمدات ناقابل بیان حد تک کم ہیں، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بند ہے۔

کہتے ہیں کہ ان مسائل کا حل سیاسی استحکام ہے جو صرف جمہوریت سے ممکن ہے جمہوریت کے لیے منتخب حکومت اور اس کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ انتخابات کے لیے ایمان دار آر ٹی ایس اور بہترین انتخابی نظام کی ضرورت ہے لیکن الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول پر ہی چپ ہے۔۔۔گم صم ۔۔۔

کچھ پک رہا ہے کیا ۔۔۔؟

تبصرے (0) بند ہیں