لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

ہم اپنے موبائل فونز کی اسکرین کے ذریعے سوشل میڈیا پر نسل کشی کے خوفناک مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے قتلِ عام مچا رکھا ہے۔ معصوم بچے مارے جارہے ہیں جبکہ پورے کے پورے خاندانوں کو ختم کیا جارہا ہے۔

نسل کشی کا یہ منصوبہ دہائیوں پرانا ہے اور اس میں اسرائیل کو پوری مغربی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ امریکا نے اپنے اس اتحادی کے لیے نہ صرف بحری بیڑہ بھیجا ہے بلکہ وہ اس کی سفارتی اور مالی معاونت بھی کررہا ہے جبکہ وہ خود اپنے شہریوں کی صحت کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے۔

اگرچہ چھوٹے پیمانے پر برطانیہ بھی امریکی روش اختیار کیے ہوئے ہے لیکن فرانس جو خود کو آزادی اظہار کا علم بردار کہتا ہے، اس نے فلسطینیوں کی حمایت میں نکالے جانے والے مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے، ایسا ہی کچھ جرمنی میں بھی ہوا ہے۔ جرمنی ایک بار پھر ہولوکاسٹ کے اپنے جرم کا ملبہ مظلوم فلسطینیوں پر ڈال رہا ہے۔ آزادی کے گڑھ تصور کیے جانے والے ان ممالک میں فلسطین کی حمایت کو جرم قرار دیا جارہا ہے جبکہ پولیس رنگ اور نسل سے قطع نظر امن کے حامیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ وہی ممالک ہیں جو آزادی اظہار کے حوالے سے دنیا کو درس دینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اس امتیازی سلوک پر انہیں مغربی میڈیا کی بھی مدد حاصل ہے جو تمام فلسطینیوں کو حماس سے منسلک کررہا ہے۔ یہ میڈیا اسرائیل کے جھوٹ کو قبول کرتا ہے اور اسے اس امید پر بار بار دہراتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگ جائے۔

لیکن اس بار اس جھوٹ پر کوئی یقین نہیں کررہا۔ عرب دنیا نے عرب بہار کے بعد سے اس طرح کے مظاہرے نہیں دیکھے جہاں عوام کی بڑی تعداد نہ صرف اسرائیل کے خلاف بھی آواز بلند کررہی ہے بلکہ (بہت احتیاط کے ساتھ) اپنی حکومتوں کی کمزوری پر بھی آواز اٹھارہی ہے۔

مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آکر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بےشک ان کی ریاست اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہو لیکن بڑی تعداد میں عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مغربی ممالک سے فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی ایک وجہ مغربی بیانیے اور میڈیا کا بری طرح بےنقاب ہونا بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے باضمیر عوام نیوز میڈیا کے بڑے بڑے ناموں کا فیکٹ چیک کررہے ہیں اور وہ نامور اینکرز جو لوگوں کو قائل کرنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں، سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جب ان کا بیانیہ جانبدار ثابت ہوتا ہے تو وہ غصے سے تلملا اٹھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے سینسر اور شیڈو بین کیے جانے کے باوجود فلسطین کی حمایت اور نسل کشی کے خلاف بڑی تعداد میں مواد سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے۔

حتیٰ کہ امریکا جو اسرائیل کا پکا اتحادی سمجھا جاتا ہے، وہاں کے شہریوں کے مؤقف میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکا میں بسنے والے یہودیوں نے وائٹ ہاؤس اور نائب صدر کمالہ ہیرس کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا جس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ریلی میں نوجوان کارکنان اور وہ ربی بھی شریک تھے جنہوں نے ہولوکاسٹ میں اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا۔ اگرچہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا لیکن ان مظاہرین نے ایک سخت پیغام دیا جو یہ تھا کہ وہ امریکا کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسرائیل کی ہتھیاروں سے مدد کرے جوکہ یہودیوں کا نام استعمال کرکے غزہ میں ایک اور ہولوکاسٹ انجام دینا چاہتا ہے۔

اس سے روایتی یہودی-امریکی تنظیمیں جیسے اینٹی ڈیفیمیشن لیگ اور اے آئی پی اے سی پر خوف طاری ہوگیا ہے جو یہ سمجھتی ہیں کہ انہیں امریکا میں مقیم تمام یہودیوں کی نمائندگی کا خودساختہ حق حاصل ہے اور وہ حیران ہیں کہ ان کا پروپیگنڈا اب کسی کام نہیں آرہا۔

جہاں تک امریکا کی بات ہے تو یہ ایک قابلِ ذکر بدلاؤ ہے جہاں وہ لوگ جو خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے، اب وہ بھی صاف اور واضح الفاظ میں اس معاملے پر بات کررہے ہیں اور اسی کی مثال ہم نے معروف کامیڈین ڈیو چیپل کے بوسٹن کے سولڈ آؤٹ شو میں دیکھی جہاں ’فلسطین کی آزادی‘ کے نعرے لگے۔

امریکی شہریوں کی سوچ میں یہ تبدیلی یکساں نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے این پی آر پول میں یہ بات سامنے آئی کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز سمیت امریکیوں کی اکثریت (65 فیصد) چاہتی تھی کہ امریکا کھل کر اسرائیل کی حمایت کرے لیکن نوجوانوں میں یہ تناسب کم ہوکر 48 فیصد اور غیر سفید فام شہریوں میں 51 فیصد ہوجاتا ہے۔

شہریوں کی سوچ میں یہ تبدیلی صرف مظاہروں اور سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے بلکہ امریکی کانگریس میں ہونے والے احتجاج اور گرفتاریوں کے ایک دن بعد مسلمان اور یہودی کانگریس عملے نے کانگریس کے اراکین کو کھلا خط لکھ کر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ان پر جوابی کارروائی کا اس قدر خوف طاری تھا کہ انہوں نے اپنے نام ظاہر نہیں کیے۔ صرف کانگریس کا عملے ہی نے نہیں بلکہ تادمِ تحریر 16 کانگریس اراکین نے بھی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور شاید ان میں کانگریس رکن جسٹن عماش بھی شامل ہوجائیں جو کہتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے سینٹ پورفیریئس چرچ میں ان کے متعدد رشتہ دار ہلاک ہوئے ہیں۔

دنیا میں اپنی ہی حکومتوں کے خلاف آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی پروپیگنڈا پھیلانے کی بھرپور کوشش کے باوجود یہ عوام کو اپنے مؤقف پر قائل نہیں کرپائیں گے۔ لیکن آج جب اسرائیل کے جنگی طیارے بچوں کو قتل کرکے مغرب کی تھپکی حاصل کررہے ہیں، آج ظالموں کا وقت ہے، انصاف کا دن نہیں مگر یہ دن ضرور آئے گا۔


یہ مضمون 23 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں