’ابرہیم زدران کا بیان افغان حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے‘

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2023
افغان کرکٹر ابراہیم زدران نے متنازع بیان دیا— فوٹو: اسکرین شاٹ
افغان کرکٹر ابراہیم زدران نے متنازع بیان دیا— فوٹو: اسکرین شاٹ

ورلڈ کپ کے اہم میچ میں پاکستان کے خلاف افغانستان کی فتح میں اہم کردار ادا کرنے والے افغان اوپننگ بلے باز ابراہیم زدران کو جہاں ان کی عمدہ کارکردگی پر سراہا جا رہا ہے وہیں انہیں اپنا مین آف میچ ایوارڈ پاکستان سے واپس افغانستان بھیجے جانے والوں کے نام کرنے پر شدید تنقید کا بھی نشانہ بنا جا رہا ہے۔

افغانستان نے گزشتہ روز پاکستان کو ورلڈ کپ کے اہم میچ میں شکست دے کر پڑوسی ملک کو ون ڈے کرکٹ میں پہلی مرتبہ شکست دینے کا اعزاز حاصل کر لیا تھا۔

پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں افغان ٹیم نے پاکستان باؤلنگ کو آؤٹ کلاس کرتے ہوئے 8 وکٹوں سے فتح اپنے نام کر لی تھی۔

اس فتح کے ہیرو تین وکٹیں لینے والے نور احمد کے ساتھ ساتھ افغان بلے باز بھی تھے جنہوں نے کسی بھی مرحلے پر پاکستانی باؤلرز کو میچ میں واپسی کا موقع فراہم نہیں کیا۔

رحمٰن اللہ گرباز نے 65، رحمت شاہ نے 77 اور کپتان حشمت اللہ شاہدی نے 48 رنز کی اننگز کھیلی لیکن میچ کے ہیرو ابراہیم زدران تھے جنہوں نے 87 رنز کی باری کھیلی تھی۔

انہیں اس عمدہ کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا لیکن مین آف دی میچ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے انہوں نے ایک سیاسی نوعیت کا بیان دیا جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پاکستان کے خلاف فتح گر اننگز کھیلنے والے ابراہیم زدران نے کہا تھا کہ یہ ایوارڈ وصول کر کے میں اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں اور یہ مین آف دی میچ ایوارڈ ان لوگوں کے نام کرتا ہوں جنہیں پاکستان سے افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔

کھیل کے میدان میں ایک سیاسی موضوع کو زیر بحث لانے اور بالخصوص پاکستانیوں کی مہمان نوازیوں پر سوال اٹھانے پر پاکستانی شائقین ابراہیم زدران کے بیان پر خاصے برہم نظر آتے ہیں۔

سینئر سیاستدان سابق رکن صوبائی اسمبلی رضا ہارون نے افغانستان کو فتح کی مبارک باد دیتے ہوئے ابرہیم زدران کے بیان پر انہیں آڑے ہاتھوں بھی لیا۔

انہوں نے کہا کہ ابراہیم زدران کو اپنی حکومت سے سازگار ماحول قائم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا تاکہ جلاوطنی میں رہنے والے افغان بحفاظت واپس آ سکیں، کیا ان کے یہ الفاظ بنیادی طور پر افغان حکومت کے خلاف چارج شیٹ نہیں ہیں جس میں اسے غیر محفوظ، جابرانہ حکومت قرار دیا گیا ہے؟۔

سوشل میڈیا صارف طحہٰ خالد نے ابراہیم زدران کو یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب بھی 10لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان باشندے 30سال سے زائد عرصے سے پرامن اور ہنسی خوشی پاکستانی سرزمین پر رہ رہے ہیں، یہ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ غیرقانونی مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجے اور ہر ملک یہی کرتا ہے۔

چند صارفین نے ابراہیم کی جانب سے کھیل کے میدان میں سیاسی معاملے پر بات کرنے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے کوئی نوٹس نہ لیے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے سوال کیا کہ کیا یہ دوہرا معیار نہیں کہ ابراہیم نے کھیل پر بات کرتے ہوئے سیاسی بیان دیا، کیا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سو رہی ہے یا تمام قوانین صرف پاکستان کے لیے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان کے اسسٹنٹ کوچ رئیس احمد سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ابراہیم کے بیان کی مذمت سے گریز کیا تاہم انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں رہے ہیں اور ہم نے وہاں بہت اچھا وقت گزارا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابراہیم نے کوئی غلط بات نہیں کی بلکہ اپنا مین آف دی میچ ایوارڈ پاکستان سے افغانستان جانے والے افراد سے اظہار ہمدردی کے لیے ان کے نام کیا ہے۔

رئیس احمد نے کہا کہ غیرقانونی مہاجرین چاہے کسی بھی ملک میں ہوں تو غیرقانونی لوگوں کو اپنے وطن واپس آنا چاہیے لیکن اس کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں پاکستانی حکومت نے تمام غیر ملکی تارکین وطن بشمول افغان شہریوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں گرفتار یا ملک سے بے دخل کر دیا جائے گا۔

یہ فیصلہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر و دیگر نے بھی شرکت کی تھی۔

اجلاس کے بعد نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور اس کے بعد نہیں جانے والوں کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔

پاکستانی حکومت کے اس فیصلے پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے اور حکام پر زور دیا تھا کہ وہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں