چار مسلسل میچز میں شکست کے بعد آخرکار پاکستانی ٹیم نے ایک میچ جیت ہی لیا۔ بنگلہ دیش کے خلاف اس میچ میں پاکستانی ٹیم نے وہی کارکردگی پیش کی جس کی پاکستان جیسی ٹیم سے امید کی جاسکتی ہے۔ باؤلنگ میں بنگلہ دیش کو صرف 204 رنز پر محدود کرنے کے بعد پاکستانی بیٹسمینوں نے ہدف کے تعاقب میں بنگلہ دیشی باؤلرز کو کوئی ڈھیل نہیں دی اور ہدف صرف 33ویں اوور میں ہی حاصل کرلیا۔

چار میچز میں مسلسل شکست کے بعد نہ صرف سیمی فائنل میں رسائی کے امکانات نہایت محدود ہو چکے تھے بلکہ ٹیم کا اعتماد بھی ڈانواں ڈول ہو چکا تھا۔ عوام کی امیدیں ختم ہو چلی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک بار پھر سے آف فیلڈ لڑائیاں بھی شروع ہو چکی تھیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر تنقید جاری تھی تو موقع کی تلاش میں بیٹھے بہت سے لوگوں کو اس سے بہتر موقع کب مل سکتا تھا؟ چیف سلیکٹر ہوں یا کوچنگ اسٹاف، کپتان ہو یا ٹیم، سبھی تنقید کی زد میں آچکے ہیں۔

باقیوں کے تو کیا کہنے، یوں لگتا ہے کہ جیسے کرکٹ بورڈ نے بھی خود کو ٹیم اور کپتان سے الگ کرلیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، ایک ٹی وی شو میں بابر اعظم کے مبینہ واٹس ایپ میسیج کے اسکرین شاٹ تک شیئر کر دیے گئے اور جب سابق کپتان اظہر علی نے پوچھا کہ یہ شئر کرنے سے پہلے اس کی بابر اعظم سے اجازت لی گئی تھی تو نہ میزبان کے پاس کوئی جواب تھا اور نہ ہی وہاں موجود اسپورٹس جرنلسٹ کے پاس۔ اس سب کے بعد چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اپنے عہدے سے مستفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

واپس میچ کی طرف آتے ہیں جہاں پاکستان کو اپنے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات کو زندہ رکھنے کے لیے یہ میچ جیتنا ضروری تھا۔ باقی تینوں میچز میں جیت کے ساتھ بہت سے اگر مگر بھی پاکستان کا ساتھ دیں تو ہی پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ پہلے بھی کئی بار پاکستانی ٹیم اسی طرح آگے بڑھتی رہی ہے، دیکھیں اس بار قسمت ساتھ دیتی ہے یا نہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے شاہین آفریدی کی اسپیڈ کچھ کم لگ رہی ہے۔ شاہین کی گیندوں پر رنز بھی کافی آسانی سے بن رہے ہیں لیکن ساتھ ہی شاہین وکٹیں بھی حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن شاہین کے پہلے اوور میں وکٹ ملنا شاید جیت کے لیے لازمی ہوگیا ہے۔ اس کے بغیر پاکستانی ٹیم کے لیے جیتنا جیسے ممکن ہی نہیں رہا۔ بنگلہ دیش کے خلاف شاہین نے اپنے پہلے دونوں اوورز میں وکٹیں حاصل کیں اور شاید یہی آغاز پاکستانی ٹیم کو درکار تھا۔

محمد وسیم بھی اس میچ میں کافی بہتر باؤلنگ کرتے نظر آئے۔ شاید اس میچ کی پچ ان کے باؤلنگ اسٹائل کو سوٹ کرگئی۔ پہلے دو اوورز میں رنز دینے کے بعد محمد وسیم نے عمدہ واپسی کی، کفایتی باؤلنگ بھی کی اور وکٹیں بھی حاصل کیں۔ وسیم کے ساتھ ساتھ حارث رؤف بھی عمدہ باؤلنگ کرتے نظر آئے۔

فاسٹ باؤلرز کی کارکردگی تو عمدہ رہی لیکن پاکستانی اسپنر ایک بار پھر مشکلات کا شکار نظر آئے۔ شاداب خان ان فٹ تھے جبکہ محمد نواز کو ڈراپ کر دیا گیا اور ٹیم میں موجود واحد اسپیشلسٹ اسپنر ایک بار پھر پورے اسپیل کے دوران بہتر لائن اور لینتھ کی تلاش میں رہے۔ اسامہ میر کی جانب سے کئی بار مسلسل دو اچھی گیندیں تو دیکھنے کو ملیں لیکن کسی بھی مرحلے پر اوور کی چھے گیندیں اچھی لائن لینتھ پر پھینکنے میں ناکام رہے۔ بھارتی پچز پر جہاں اسپیشلسٹ اسپنر تو ایک طرف گلین فلپس جیسے پارٹ ٹائمر بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہیں پاکستانی اسپنرز ٹیم پر جیسے بوجھ بن کر رہ گئے ہیں۔

مجموعی طور پر پاکستانی باؤلرز نے اس میچ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور بنگلہ دیشی ٹیم کو صرف 204 رنز پر ڈھیر کر دیا لیکن پاکستانی ٹیم کا صرف چار اسپیشلسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترنا کسی بھی دوسری ٹیم کے خلاف ایک ہارا ہوا جوا ثابت ہو سکتا تھا۔ خاص طور پر جب یہ خطرہ پہلے سے موجود ہو کہ چار اسپیشلسٹ باؤلرز میں سے ایک بری کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اگرچہ افتخار احمد نے عمدہ باؤلنگ کی لیکن اگر بنگلہ دیش کی ابتدائی وکٹیں جلد نہ گرتیں تو یہ فیصلہ کافی مہنگا پڑ سکتا تھا۔

فخر زمان سال کے ابتدا میں نیوزی لینڈ کے خلاف عمدہ کارکردگی کے بعد افغانستان سیریز اور ایشیا کپ میں مسلسل ناکامی کے بعد ٹیم سے ڈراپ کر دیے گئے لیکن پھر امام کی مسلسل ناکامیوں نے فخر کی واپس کی راہ ہموار کر دی۔ ٹیم سے ڈراپ کر دیا جانا تو جیسے فخر کے لیے فارم میں واپسی کا ایک بہانہ بن گیا۔ فخر کی اننگز کا آغاز تو سست تھا لیکن کہیں سے بھی یہ نہیں لگا کہ یہ وہی فخر زمان ہیں جو ایشیا کپ اور پھر ورلڈکپ کے ابتدائی میچ میں کھیل رہے تھے۔

فخر زمان نے ابتدائی سست آغاز کے بعد شاندار ہٹنگ کا مظاہرہ کیا تو دوسری جانب سے عبداللہ شفیق کی دلکش شاٹس کا سلسلہ ہر میچ کی طرح اس بار بھی جاری تھا۔ گیند کو باؤنڈری پار تو فخر بھی پہنچا رہے تھے، فخر کے شاٹس بھی عمدہ تھے لیکن ہمیشہ کی طرح عبداللہ شفیق کے شاٹس کی روانی، دلکشی اور خوبصورتی ہی کچھ اور تھی۔ دونوں نے نہایت خوبصورت اور جارحانہ بیٹنگ سے ہدف کو نہایت آسان بنا دیا تھا لیکن دونوں ہی بدقسمتی سے سنچری مکمل نہ کر سکے۔

بنگلہ دیشی ہدف کے تعاقب میں کپتان بابر اعظم واحد بیٹسمین تھے جو ناکام ہوئے لیکن اس کے بعد افتخار احمد اور محمد رضوان نے مزید کسی نقصان کے ہدف حاصل کرلیا۔ پاکستانی ٹیم نے بنگلہ دیش کے خلاف یہ میچ تو جیت لیا لیکن سیمی فائنل تک رسائی کے کسی بھی امکان کے لیے نہ صرف پاکستان کو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیم کو شکست دینی ہوگی بلکہ باقی ٹیموں خاص طور پر نیوزی لینڈ کے میچز کے نتائج بھی پاکستانی ٹیم کے حق میں جانے لازمی ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں