’فوری جنگ بندی کی جائے‘، فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2023
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی —فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی —فوٹو: ڈان نیوز
اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ قرارداد پاکستانی عوام کے جذبات کی عکاسی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ قرارداد پاکستانی عوام کے جذبات کی عکاسی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستانی ایوان بالا میں غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحٰق ڈار نے سینیٹ میں قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قرارداد دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل غزہ کی مقبوضہ پٹی میں مقیم فلسطینیوں کے معصوم بچوں، خواتین اور مردوں کے خلاف انسانیت سوز اسرائیلی جرائم اور ریاستی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دوسری عالمی جنگ میں ہولوکاسٹ کے بعد سے، کسی بھی ریاست نے اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت، قتل عام اور جنگی جرائم کا ارتکاب نہیں کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ فلسطینیوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہے جبکہ اسرائیل کی حمایت کرنے والوں کے دوہرے معیار اور منافقت کی بھی مذمت کرتی ہے کیونکہ وہ نہ صرف ان جرائم میں شراکت دار ہیں بلکہ وہ جنگ زدہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔

اسحق ڈار نے کہا کہ ’یہ قرارداد پاکستانی عوام کے جذبات کی عکاسی ہے اور پاکستان کے مستقل عزم پر فخر کرتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس طرح کی پالیسی سب سے پہلے بانی پاکستان نے دی تھی، اس لیے پاکستان کی اصولی پالیسی فلسطین کے عوام کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کی حمایت اور فلسطین کے لوگوں کی ایک آزاد ریاست کے حصول پر مبنی ہے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو ختم کرنے، تمام انسانی تنظیموں کو امدادی سامان، ادویات، خوراک اور پانی غزہ تک پہنچانے کے لیے مکمل رسائی فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور اسرائیلی جارحیت، ظلم و جبر اور امت مسلمہ کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے والی اسرائیلی سرگرمیاں بند کرنے پر زور دیتی ہے۔‘

غزہ، قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، جلیل عباس جیلانی

نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے سینیٹ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ’پچھلے دو ہفتے سے غزہ میں ہونے والے ظلم کے باعث غزہ ایک قبرستان کا نمونہ پیش کر رہا ہے، یہ صورتحال نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جو اسرائیلی حملے ہیں یہ صرف غزہ تک کی محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا دائرہ کار بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے‘۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کی جانب سے یہ جو اعدادوشمار دیے گئے ہیں، کئی آزاد ذرائع کے مطابق شہادتوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے‘۔

جلیل عباس جیلانی کے مطابق اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ ’غزہ میں اب تک تقریباً ساڑھے 8 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جس میں ساڑھے تین ہزار بچے شامل ہیں، تقریبا 25 ہزار سے زیادہ فلسطینی اس وقت زخمی حالت میں ہیں اور وہاں کے تقریباً 222 اسکولوں سمیت ایک لاکھ 80 ہزار کے قریب مکانات بھی تباہ ہوگئے ہیں۔‘

سینیٹ سے خطاب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نہ وہاں پر بجلی ہے نہ پانی ہےاور نہ خوراک موجود ہے، ہسپتالوں پر اب تک 35، 36 اسرائیلی حملے ہو نے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں، جو زخمی ہیں ان کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ان کے علاج کے لیے سہولیات موجود ہیں۔‘

نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ ’غزہ معاملے پر پاکستان نے ایک فعال کردار ادا کیا، میرا رابطہ او آئی سی کے تمام اہم ممالک کے وزیر خارجہ سے رہا، انہی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ طور پر او آئی سی کا ایک خصوصی سیشن طلب کیا اور وہاں پر متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی جس میں فوری طور پر جنگ بندی کروانے، جلد از جلد غزہ سمیت دیگر متاثرہ علاقوں تک انسانی مدد بھیجنے، تمام یرغمالیوں کو رہا کیے جانے اور جلد از جلد امن کے سلسلے کو بحال کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ’ اس سلسلے میں تمام ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں وہ اہم قدم اٹھائیں، اسرائیل نے تین چار ہفتے میں ظلم و بربریت کی جو نئی مثال قائم کی ہے اس کے پس منظر میں جائیں تو انہوں نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی کی اور تمام اخلاقی اقدار کو پامال کردیا’۔

ڈیتھ اسکواڈز میں بی این پی مینگل، سردار اختر مینگل کا کہیں نام نہیں لیا، سرفراز بگٹی

اس کے علاوہ ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر محمد قاسم کے نکتہ اعتراض کے جواب میں نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ انہوں نے ڈیتھ اسکواڈز کے تذکرے میں بی این پی مینگل اور سردار اختر مینگل کا کہیں نام نہیں لیا، اختر مینگل پچھلے پانچ سال کے دوران حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس وقت لاپتا افراد کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا؟ بی این پی مینگل نے لاپتا افراد اور ڈیتھ اسکواڈ کے معاملے پر دھرنا دیا، قدوس بزنجو کی وزارت اعلیٰ کے دور میں بلوچستان حکومت کا بھی غیر اعلانیہ حصہ رہے، پی ٹی آئی کے اتحاد ی رہے، پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی شامل رہے، اس وقت جو فورمز تھے انہیں لاپتا افراد کے مسئلے کو اٹھانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیتھ اسکواڈ میں بی ایل اے شامل ہے جس نے 5 ہزار بے گناہ شہریوں کو شہید کیا ہے، بلوچستان میں پنجابیوں، اساتذہ، پروفیسرز اور ڈاکٹرز کو شہید کیا گیا ہے جن میں 30 سال تدریس کے شعبے سے وابستہ رہنے والی پروفیسر ناظمہ طالب بھی شامل ہیں۔

نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ بی ایل اے نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی اور وہ دیگر واقعات کی بھی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے، اسی طرح بی آر اے، یو بی اے، بی ایل ایف، مجید بریگیڈ ہیں، بی ایل اے کی قیادت حربیار مری، یو بی اے کی قیادت اس کا چھوٹا بھائی زمران مری، بی آر اے کی قیادت براہمداغ بگٹی، بی ایل ایف کی قیادت ڈاکٹر اللہ نذر، بی آر اے اچھو گروپ کی قیادت بشیر زیب اور لشکر بلوچستان کی قیادت جاوید مینگل کر رہے ہیں۔

اس میں کہیں بھی میں نے بی این پی مینگل اور سردار اختر مینگل کا ہم نے نام نہیں لیا، ہم نے تو انہیں ان تنظیموں کے ساتھ نہیں جوڑا، اگر یہ خود اپنے آپ کو ان کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں