سربراہ کو تمام اختیارات دینے سے متعلق پیمرا کا فیصلہ کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2023
جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے تاریخی فیصلے میں پیمرا کے 2007 کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا —فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے تاریخی فیصلے میں پیمرا کے 2007 کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا —فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے اپنے تمام اختیارات چیئرپرسن کو سونپنے کے اہم فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے میڈیا واچ ڈاگ کو اس سلسلے میں باقاعدہ قواعد وضع کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ نجی نیوز چینل ’نیو ٹی وی‘ کی جانب سے دائر کی گئی اپیل سے متعلق ہے جس میں پیمرا کی جانب سے اس پر عائد کردہ 5 لاکھ روپے کے جرمانے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

اپنے تاریخی فیصلے میں جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیمرا کے 2007 کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں اس کے تمام اختیارات چیئرپرسن کو سونپے گئے تھے۔

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس (سی او سی) میں درج کی گئی شکایت میں نیو ٹی وی پر مارچ 2021 میں نشر ہونے والے پروگرام کے دوران الیکٹرانک میڈیا (پروگرامز اور اشتہارات) کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔

اگلے ماہ ہونے والی میٹنگ میں سی او سی نے پروگرام کے مواد کو خلاف قانون پایا اور جرمانے کی تجویز دی جسے چیئرپرسن پیمرا نے 29 اپریل کو منظور کیا، بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے پیمرا کے حکم کے خلاف اپیل خارج کر دی۔

قانونی چیلنج کو آگے بڑھاتے ہوئے بیرسٹر افضل حسین نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرتے ہوئے کہا کہ چیئرپرسن پیمرا سی او سی کی سفارشات پر تن تنہا حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے جب کہ اس حوالے سے رولز موجود نہیں ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ جون 2023 میں محفوظ کیا گیا تھا، تفصیلی فیصلہ جمعہ کو عدالت کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا۔

پیمرا ممبران میں چھ سابق ممبران جن میں چیئرپرسن پیمرا، اس کے ایگزیکٹو ممبر، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہان، سیکریٹری داخلہ، انفارمیشن سیکریٹریز اور چاروں صوبوں سے پانچ آزاد ممبران اور ایک وفاقی حکومت سے نمائندہ شامل ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ پیمرا نے اپنی مورخہ 31.07.2007 کی میٹنگ میں اپنے اختیارات چیئرمین پیمرا کو دے دیے اور سب کچھ چیئرمین پیمرا کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ عوامی ادارے جن میں صوابدیدی اختیار ہوتا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قواعد و ضوابط اور صوابدید کے درمیان بہترین توازن قائم کرنے کے لیے اہم معیارات کے نفاذ کے ذریعے اس اختیار کو محدود اور تشکیل دیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ قانون کے تحت سی او سی کو بھی الیکٹرانک میڈیا پروگراموں کے کسی بھی پہلو کے خلاف عوامی شکایات کو دور کرنے کے لیے فیصلہ کن اور سفارشی کردار حاصل ہے۔

عدالت نے کہا کہ سی او سی کو اختیار ہے کہ وہ لائسنس یافتہ کو طلب کرے، ایسی شکایات پر رائے دے اور کسی خلاف ورزی کی صورت میں وہ سرزنش یا جرمانے کی مناسب کارروائی کی پیمرا کو سفارش کر سکتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ سی او سی کی سفارشات کی بنیاد پر جرمانے عائد کرنے کا اختیار پیمرا کا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں