لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

میرا دوست مجھ سے ایک مشورہ لینا چاہتا تھا۔ اس کا بیٹا اے لیولز کررہا ہے اور وہ اسکول چھوڑ کر بطور پرائیویٹ امیدوار امتحانات دینا چاہتا ہے۔ اس کے بیٹے کا مؤقف بھی اپنی جگہ درست تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اسکول میں 6 گھنٹے گزارنے کے باوجود بھی اسے اچھا نہیں پڑھایا جاتا۔ اس کی اے لیولز کی تمام تیاری ٹیوشنز کی بدولت ہورہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اسکول اور ٹیوشن دونوں کی فیس دینے اور اسکول میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کیوں نہ صرف ٹیوشنز کے لیے ہی فیس دی جائے۔ ٹیوشنز کے ذریعے زیادہ دل لگا کر پڑھائی کرے اور غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے بھی وقت نکالے۔

میں کیونکہ اس وقت کا ہوں جب زیادہ تر پڑھائی اسکول میں ہی ہوتی تھی اس لیے میں نے اپنا یہ مؤقف پیش کرنے کی کوشش کی کہ اسے اسکول میں ہی پڑھنا چاہیے۔ وہاں اس کے دوست ہیں، وہ مختلف سماجی صلاحیتیں سیکھ رہا ہے جبکہ وہ وہاں اسکول کی اسپورٹس ٹیم میں بھی حصہ لے سکتا ہے۔ میرے دوست کے بیٹے نے کہا کہ اسکول کھیلنے کے مواقع فراہم نہیں کرتا اور اسکول میں ساتھی طلبہ کے ساتھ دوستی بھی اتنی زیادہ نہیں۔

وقت بدل گیا ہے۔ جب ہم لوگ اسکول میں تھے تب بہت کم بچے ٹیوشن جایا کرتے تھے اور جو جاتے تھے ان میں سے اکثریت کسی کو اپنے ٹیوشنز لینے کے بارے میں بتاتی بھی نہیں تھی کیونکہ اس وقت یہ گمان تھا کہ جو ٹیوشن لیتا ہے وہ پڑھائی میں ’کمزور‘ ہے یا پھر اسے ’فائدہ‘ حاصل ہے۔

2018ء کی اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (اے ایس ای آر) کے مطابق سرکاری اسکولز کے 8 فیصد جبکہ نجی اسکولز کے 28 فیصد بچے پرائیویٹ ٹیوشنز لے رہے ہیں۔ 2019ء میں یہی تناسب 7 اور 22 فیصد تھا جبکہ کورونا کے بعد سرکاری اسکولز کے بچوں کی ٹیوشنز لینے کی شرح 20 فیصد جبکہ نجی اسکولز کے بچوں میں یہ شرح 22 فیصد تک پہنچ گئی۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ہر 4 میں سے ایک بچہ اضافی فیس دے کر اسکول کے بعد ٹیوشنز لے رہا ہے۔ اس رپورٹ میں زیادہ تر دیہی علاقوں کی نمائندگی کی گئی تھی اور ان بچوں کی نمائندگی کم تھی جوکہ بھاری فیس لینے والے شہری اسکولز میں جاتے ہیں۔ کورونا کے دوران چونکہ اسکولز بند تھے اس لیے ٹیوشنز کا رجحان زیادہ تھا۔ حتیٰ کہ کورونا کے بعد بھی ٹیوشنز کی اہمیت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اے ایس ای آر کے اعدادوشمار کے مطابق 27 فیصد طلبہ کورونا کے دوران ٹیوشنز لے رہے تھے۔

کوچنگ کے ایسے ادارے بھی موجود ہیں جوکہ مختلف طرح کے تعلیمی نصاب کے لیے مخصوص ہیں۔ جیسے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے لیے ایسے ادارے موجود ہیں جو 3 سے 4 ماہ میں طالب علم کو امتحانات کی تیاری کروا دیتے ہیں۔ یہ ادارے زور دیتے ہیں کہ بچہ پریکٹس کو اپنا معمول بنائے جس سے اس کی یاد کرنے کی صلاحیت بہتر ہوگی اور ساتھ ہی ان سے ماضی کے پرچے بھی حل کروائے جاتے ہیں۔

اے لیولز کی مارکیٹ بھی کچھ مختلف نہیں۔ اس میں کچھ ایسے مخصوص اساتذہ ہوتے ہیں جوکہ طلبہ کو متعلقہ مضامین کی تیاری کروانے کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ ان اساتذہ کا مارکیٹ شیئر بھی نمایاں ہوتا ہے۔

نجی اسکولز کی مارکیٹ کی طرح ٹیوشنز میں بھی یہ والدین کی آمدنی پر منحصر ہے کہ ان کا بچہ کتنی مہنگی اور کس معیار کی ٹیوشنز لیتا ہے۔ اے ایس ای آر کے مطابق نجی اسکولز کے مقابلے میں سرکاری اسکولز کے کم طلبہ ٹیوشنز لیتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت نہیں کہ نجی اسکولز کے طلبہ میں بہتر اور معیاری تعلیم کی مانگ زیادہ ہے بلکہ یہ والدین کی قوتِ خرید کی عکاسی کرتا ہے۔

پاکستان میں تعلیمی نظام انتہائی غیرمساوی ہے۔ معیاری تعلیم تک رسائی مختلف عناصر جیسے والدین کی آمدنی، طلبہ کی جنس، کسی طرح کی معذوری، مقام اور جغرافیے، مذہب، ذات اور زبان پر منحصر ہے۔ سرکاری اسکولز کا معیارِ تعلیم خراب ہے۔ کم فیسوں والے نجی اسکولز کچھ بہتر ہیں جبکہ زیادہ فیسوں والے اسکولز کا تعلیمی معیار قدرے بہتر ہے لیکن وہ بہت زیادہ مہنگے ہیں۔

لاہور میں ایک جانب جہاں سرکاری اسکولز مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ایسے بھی اسکولز ہیں جن کی ماہانہ فیس 90 ہزار روپے ہے۔ دنیا بھر میں تعلیم کو برابری، سماجی اور معاشی تحرک اور میرٹ کے فروغ کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس ہمارا تعلیمی نظام موجودہ عدم مساوات کو نسل در نسل بڑھاتا ہے۔ پرائیویٹ ٹیوشنز سے غیرمساوی صورتحال مزید سنگین ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کے معاشی حالات اچھے ہیں وہ تو اپنے بچوں کو اچھی کوچنگ مہیا کرسکتے ہیں لیکن کم آمدنی والے والدین یہ اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔

یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے۔ لیکن بہت سے دیگر ممالک میں سرکاری اسکولز کا معیار اتنا خراب نہیں جبکہ وہاں نجی تعلیمی سیکٹر بھی پاکستان جتنا بڑا نہیں ہے۔ تو ان ممالک میں مسئلہ اتنا سنجیدہ نہیں، پھر بھی انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات لیے ہیں۔

اس مسئلے کے حل کے دو راستے ہیں۔ ایک حل تو قوانین بنانا ہے کیونکہ چند ممالک نے سخت قانون سازی کرکے ٹیوشنز مارکیٹ کو ختم کرنے کی کوشش یا پھر اسے ایک حد تک محدود کردیا ہے۔ لیکن ان قوانین پر عمل در آمد کروانا انتہائی دشوار ہوگا۔ ٹیوشنز کے کاروبار میں دونوں فریقوں کا فائدہ ہوتا ہے اس لیے اگر ان پر قانونی پابندی بھی عائد کردی جائے تب بھی انہیں ڈھونڈ کر بند کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ اگر کوئی استاد گھروں میں جاکر یا چند طلبہ کو اپنے گھر بلا کر پڑھاتا ہے تو ریاست کو ان ٹیوشنز کے بارے میں کیسے علم ہوگا؟ حتیٰ کہ کوچنگ ادارے جو ہر گلی پر موجود ہوتے ہیں، حکومت کیسے ان پر پابندی کا اطلاق کروائے گی؟ تو یہ حل کچھ خاص کارآمد ثابت نہیں ہوگا اور یہ ہر گز ایسا راستہ نہیں ہے جو پاکستان میں اختیار کیا جائے۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ ریاست ان طلبہ کو ٹیوشنز فراہم کرے جو اس کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔ غریب طبقے سے آنے والے بچوں کو وظیفہ دیا جائے تاکہ وہ اضافی کوچنگ کے اخراجات اٹھا سکیں۔ لیکن میں ایک بار پھر کہوں گا کہ یہ درست حل نہیں ہے۔ ہماری ریاست کے مطابق ان کے پاس اسکولز اور شعبہِ تعلیم پر لگانے کے لیے اضافی بجٹ نہیں ہے جبکہ ہمارے یہاں 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے، تو ایسے میں ریاست کیسے ٹیوشنز پر خرچہ کرسکتی ہے۔

اس عدم مساوات کا واحد حل یہی ہے کہ سرکاری اسکولز میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ اگر معیار بہتر بنایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف بہت سے والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولز میں داخل کروائیں گے بلکہ ان کے اضافی کوچنگ کے اخراجات بھی بچیں گے۔ اضافی ٹیوشنز کی ضرورت اسی لیے پڑ رہی ہے کیونکہ اسکولز بہتر معیاری تعلیم نہیں دے رہے اور والدین کو لگتا ہے کہ بچوں کو مقابلے کے لیے تیار کرنے کے لیے اضافی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختصراً اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ٹیوشنز کا رجحان یوں ہی بڑھتا جائے گا جبکہ ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب یہ اسکولز مارکیٹ سے زیادہ اہمیت اختیار کرجائے گا۔


یہ مضمون 10 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں