مولانا فضل الرحمٰن کا غزہ میں اسرائیلی ’قتل عام‘ کےخلاف مسلمانوں کے اتحاد پر زور

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2023
مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام مارچ آبپارہ چوک سے شروع ہو کر ڈپلومیٹک انکلیو کے قریب ایمبیسی روڈ پہنچا — فوٹو: وائٹ اسٹار
مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام مارچ آبپارہ چوک سے شروع ہو کر ڈپلومیٹک انکلیو کے قریب ایمبیسی روڈ پہنچا — فوٹو: وائٹ اسٹار

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں تاکہ اسرائیل کو سخت پیغام دیا جائے کہ مسلمان متحد ہیں اور اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کو قتل کرنے نہیں دیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیلی قتل عام کا نوٹس لیں، انہوں نے عالمی تنظیموں کی جنگی خلاف ورزیوں کے حوالے سے لاتعلقی کو بھی اجاگر کیا جس کے نتیجے میں معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی مسلم ملک کی طرف سے ایسی جنگی کارروائیاں کی جاتیں تو یہ تنظیمیں شور شرابہ کرتیں اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیتیں، لیکن اسرائیل کے معاملے میں معصوم بچوں اور خواتین کے قتل کی خبروں پر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

انہوں نے کہا کہ حماس کی قیادت کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں انہوں نے پیغام دیا کہ پاکستان، فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے جس پر حماس نے جواب میں کہا کہ پاکستان دنیا میں ان کی امیدوں کا مرکز ہے۔

مری میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’بزدل‘ خواتین اور بچوں پر بم برسا رہے ہیں، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پوری امت مسلمہ کو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں پر ’قتل عام‘ کے خلاف خاموش رہنے پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ روس اور امریکا کو افغانستان سے نکال باہر کیا گیا، اگر امریکا خود کو سپر پاور سمجھتا ہے تو وہ بے وقوف ہے، اگر ہم امریکا کو سپر پاور سمجھتے ہیں تو ہم بھی بے وقوف ہیں۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے زور دیا کہ پاکستانی حکومت کو معصوم لوگوں کے قتل پر سخت ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں مضبوط حکومت کی سخت ضرورت ہے، یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ ایسی حکومت منتخب کریں جو معیشت کو بہتر بنائے اور خارجہ پالیسی کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے رہنما اصولوں کے مطابق ڈھالے۔

انہوں نے 1940 کی قرارداد پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے روشنی ڈالی کہ قائداعظم نے فلسطین کی حمایت کی اور اسرائیل کو سامراج کا ناجائز بچہ قرار دیا، پاکستان کے لیے پیغام واضح تھا کہ وہ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہ کرے۔

انہوں نے بھارتی حکومت پر اسرائیل کی حمایت کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نہرو اور گاندھی اسرائیل کے خلاف تھے جب کہ جمعیت علمائے ہند نے اسرائیل کے خلاف فلسطین کی اخلاقی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

ایم ڈبلیو ایم کا اسلام آباد میں مارچ

اس کے علاوہ اسلام آباد میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد نے اسرائیل کے مظالم کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت کے لیے منعقدہ مارچ میں شرکت کی جس کا اہتمام مجلس وحدت مسلمین نے کیا۔

مارچ آبپارہ چوک سے شروع ہوا اور ڈپلومیٹک انکلیو کے قریب ایمبیسی روڈ پر پہنچا جہاں عوامی اجتماع کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجا ناصر عباس نے کہا کہ امریکا، اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے اسی لیے اسرائیل نے غزہ خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ بہت جلد پاکستانی عوام فلسطینیوں کی حمایت میں متحد ہو جائیں گے اور شیعہ، سنی کا کوئی فرق نہیں ہو گا۔

لیاقت بلوچ، سید حسنین گردیزی، ضیا اللہ بخاری، مفتی گلزار احمد نعیمی نے بھی مارچ سے خطاب کیا۔

جماعت اسلامی کا بھی اسرائیل کے خلاف اتحاد پر زور

سیالکوٹ میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ’لبیک یا فلسطین‘ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں مظالم کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے امت مسلمہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بے گناہ شہریوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں