لاہور ڈی ایچ اے حادثہ کیس: ایف آئی آر میں دہشتگردی اور قتل کی دفعات بھی شامل

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2023
ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہے — فائل فوٹو: فیس بک
ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہے — فائل فوٹو: فیس بک

پولیس نے ایک نوجوان لڑکے کے خلاف پہلے سے درج مقدمے میں دہشت گردی اور قتل کی دفعات بھی شامل کردیں، جس کی تیز رفتار کار کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے نتیجے میں چند دن قبل ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں دو بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 6 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس المناک واقعے میں اپنی 45 سالہ اہلیہ رخسانہ بیگم، 25 سالہ بیٹے حسنین، 23 سالہ بہو عائشہ، 30 سالہ داماد سجاد، 4 ماہ کے پوتے حذیفہ اور 4 سالہ پوتی عنایا کو خون میں لت پت دیکھنے کے بعد گھر کا سربراہ بھی صدمے سے دو چار ہے۔

گاڑی چلانے والے افنان شفقت کو مقامی افراد نے جائے وقوع پر ہی پکڑ لیا تھا، جو ایک نوعمر لڑکا معلوم ہوا، پولیس نے اسے حادثے کے فوراً بعد ہی گرفتار کر کے مقدمہ درج کرلیا تھا۔

ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہے اور متاثرہ خاندان کے سربراہ رفاقت علی نے ایف آئی آر میں درج دفعات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ لڑکے نے جھگڑے کی وجہ سے ان کےخاندان والوں کو ہدف بنا کر قتل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکا اس وقت اکیلا نہیں تھا، جب اس نے جان بوجھ کر اپنی تیز رفتار فور وہیلر (100 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد) سے فیز-سیون میں ان کے خاندان والوں کی گاڑی کو ٹکر ماری۔

رفاقت علی نے یہ دعویٰ کیا کہ اس لڑکے کے دو ساتھی بھی حادثے کے وقت اس کے ہمراہ تھے۔

مرکزی ملزم کا ان کے خاندان والوں کے ساتھ پہلے اُس وقت جھگڑا ہوا جب اس نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا، انہوں نے تمام مشتبہ افراد کو سزا دینے کے لیے ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔

کاہنہ سرکل کے ڈی ایس پی راجا فخر نے ڈان کو بتایا کہ ہم نے مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) اور قتل کی دفعات شامل کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان کے سربراہ (شکایت کنندہ) کے مطابق افنان کی گاڑی میں دو اور مشتبہ افراد موجود تھے۔

ڈی ایس پی نے بتایا کہ پولیس دیگر 2 ملزمان کو بھی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لیے نوٹس بھیجے گی۔

کچھ گواہوں اور خاندان کے سربراہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لڑکا ان کا پیچھا کر رہا تھا اور ایک موقع پر اس نے گھر والوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں ڈی ایچ اے کی حدود میں گاڑی چلانے نہیں دے گا، یہ ایک اور عمل ہے جو اس کی ’ذہنیت‘ کی عکاسی کرتا ہے۔

ڈی ایس پی نے بتایا کہ خاندان کے سربراہ کے مطابق مرکزی ملزم نے مبینہ طور پر خواتین کو (واقعے سے پہلے) ہراساں کیا، جب وہ 2 کاروں میں ایک قریبی رشتہ دار سے ملنے کے بعد اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

یہ رپورٹس بھی موصول ہوئیں کہ ملزم نے واقعے کے بعد تیزی سے گاڑی چلانے کے اپنے جرم کو قبول کرلیا ہے۔

اس واقعے نے لاہور بالخصوص ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں میں کم عمر بچوں کے گاڑی چلانے کے معاملے کو بھی اجاگر کیا، جس نے ٹریفک پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو نو عمر ڈرائیوروں کے خلاف ایک نئی مہم چلانے پر راغب کر دیا۔

دریں اثنا، چیف ٹریفک آفس لاہور (سی ٹی او) نے بتایا کہ پولیس نے گزشتہ تین دنوں کے دوران کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف 998 مقدمات درج کیے اور ان کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ضبط کرتے ہوئے کئی لڑکوں کو سلاخوں کے پیچھے بھی ڈالا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی گزشتہ ہفتے ہونے والے ڈی ایچ اے واقعے کے تناظر میں کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں