مشرقی وسطیٰ میں جاری تنازع نے ملکوں کی منافقت اور اخلاقی زوال کو بے نقاب کردیا، ماہرین

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2023
سابق سفارتکار تسنیم اسلم نے کہا کہ اس جنگ کا مقصد فلسطینیوں کا ان کی سرزمین سےمنظم خاتمہ ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
سابق سفارتکار تسنیم اسلم نے کہا کہ اس جنگ کا مقصد فلسطینیوں کا ان کی سرزمین سےمنظم خاتمہ ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

مشرقی وسطیٰ میں جاری تنازع نے لین دین اور ذاتی مفادات کے پیش نظر ملکوں کی منافقت اور اخلاقی زوال کو بے نقاب کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ خیالات اسلام آباد میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی جانب سے منعقد کردہ ’مشرقی وسطیٰ تنازع: بدلتے جغرافیائی ڈائنامکس‘ گول میز کانفرنس کے دوران سامنے آئے۔

سفارتکاروں، پالیسی سازوں، اسکالرز اور سول-ملٹری تعلقات کے ماہرین نے اس تنازع پر عرب ممالک اور مسلم دنیا کے ردعمل، اقتصادی اور سیکیورٹی اثرات، امریکا اور چین کے کردار اور تنازع کو حل کرنے کے عوامل کا جائزہ لیا۔

سابق سفارتکار تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری تنازع نے ایک رات میں جنم نہیں لیا بلکہ یہ فلسطینیوں کی مسلسل تذلیل، غیر انسانی رویوں اور انہیں علیحدہ کرنے کا نتیجہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس جنگ سے مشرقی وسطیٰ میں مزید عدم استحکام بڑھے گا اور مصر سمیت دیگر ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے، جس کا مقصد فلسطینیوں کا ان کی سرزمین سے منظم خاتمہ ہے۔

تنازع میں موجود وسیع تر جغرافیائی سیاسی ڈائنامکس کو تسلیم کرتے ہوئے سابق سفیر رفعت مسعودکا کہنا تھا کہ دنیا کو اس تنازع کو ایران-امریکا دشمنی کے تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیے، ان کا تاریخی کردار اس تنازع کے پرامن حل کی گفتگو میں ان کی شمولیت اور فعال کردار کا تقاضا کرتا ہے۔

سابق سفیر شہزاد چوہدری نے انسانی بحران کو بگڑنے سے روکنے اور دیرپا امن کو یقینی بنانے کے لیے دو ریاستی حل کی ضرورت پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا اہم شخصیات بشمول جو بائیڈن، بنجمن نیتن یاہو اور فلسطینی قیادت معاہدوں کے ذریعے امن کی راہ ہموار کر سکتی ہے، اس طرح کے حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عالمی رہنماؤں کو امن پر یقین رکھنا چاہیے اور معصوم جانوں کے ضیاع کا جواز پیش کرنے کے بجائے اس تنازع کو ختم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

قائداعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے تازہ تنازعات کے بعد مغرب میں فلسطینیوں کے لیے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح رائے عامہ مغرب اور جمہوری طور پر منتخب حکومتوں پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے امن کے لیے عالمی رہنما کے طور پر چین کے کردار کو سراہا۔

سابق وزیر مملکت اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین ہارون شریف نے کہا کہ خود غرض معاشی اور سیاسی مفادات نے ان ریاستوں بشمول تنازع کے قریب ترین ملکوں کے ضمیر کو اندھا کر دیا ہے۔

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل آصف یٰسین ملک نے تنازعات کو حل کرنے میں امن اداروں کے کردار پر تنقید کی اور کہا کہ فلسطین ان کے ایجنڈے میں بہت کم اہمیت رکھتا ہے، انہوں نے مسلم اور عرب ممالک کے درمیان اندرونی تقسیم کے نقصان دہ اثرات پر روشنی ڈالی اور اس معاملے پر اسٹیک ہولڈرز کے کم تشویش کے مظاہرے پر سوال اٹھایا۔

سابق سفیر قاضی ہمایوں نے بحث کو موڈریٹ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ کس طرح مشرق وسطیٰ کے بحران نے پوری دنیا کو صدمے سے دو چار کردیا ہے۔

شرکا نے کہا کہ امریکا اور چین جیسے ممالک کو تنازعات سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے، انہیں دونوں فریقین کی جانب سے امن کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

جو بائیڈن انتظامیہ کے حالیہ مؤقف اور اسرائیل کی طرف جھکاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسیوں کے فیصلوں کی وجہ سے امریکا اور یورپی یونین کے عالمی وقار کو نقصان پہنچا، امریکی پالیسی کی اتنی شدید مخالفت کافی عرصے بعد دیکھنے کو ملی، یورپی یونین کا بھی یہی حال ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں