افغان شہریوں کی بے دخلی سے متعلق درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ یکم دسمبر کو ہوگا

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2023
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل بینچ فرحت اللہ بابر  درخواست پر سماعت کرے گا — سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل بینچ فرحت اللہ بابر درخواست پر سماعت کرے گا — سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نگران حکومت کے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر یکم دسمبر کو فیصلہ سنائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل بینچ پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے اپنے وکیل عمر اعجاز گیلانی کے توسط سے دائر درخواست پر سماعت کرے گا۔

20 نومبر کو جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیمبر میں سماعت کے دوران عدالت کے رجسٹرار کی جانب سے درخواست مقرر نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر اسے لگانے کا حکم دیا۔

رجسٹرار آفس نے پٹیشن اس بنیاد پر واپس کر دی تھی کہ وہ یہ بتانے میں ناکام رہی کہ موجودہ کیس میں آئین کے تحت ضمانت دیے گئے عوامی اہمیت کے کون سے نکات شامل ہیں جو کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہیں۔

درخواست فرحت اللہ بابر، سینیٹر مشتاق احمد، آمنہ مسعود جنجوعہ، محسن داوڑ، محمد جبران ناصر، سید معاذ شاہ، پادری غزالہ پروین، ایمان زینب مزاری، احمد شبر، ایڈووکیٹ عمران شفیق، لیوک وکٹر، سجل شفیق اور روحیل کاسی کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر کی گئی ہے۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں کو کسی ایسے شخص کو حراست میں لینے، ملک بدر کرنے یا ہراساں کرنے سے روکے جس کے پاس پی او آر (رہائش کا ثبوت)، اے سی سی (افغان شہری کارڈ)، یو این ایچ آر سی کی جانب سے جاری کردہ پناہ لینے کی درخواست یا اس کے پارٹنر ایس ایچ اے آر پی اور ایس ای ایچ اے آر طرف سے جاری کی گئی پری اسکریننگ سلپ موجود ہو۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ہدایت جاری کی جائے جس میں وفاقی حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ شہریت ایکٹ 1951 کے سیکشن 4 اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی حافظ حمد اللہ صبور کے 2021 کیس میں دی گئی رولنگ کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو حراست میں نہ لے، اسے زبردستی ملک بدر نہ کرے، اسے ہراساں نہ کرے۔

اس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو کہا جائے کہ وہ پناہ لینے سے متعلق درخواستوں کو رجسٹر کرنے، اس پر کارروائی میں تیزی لانے اور فیصلہ کرنے کے لیے یو این ایچ سی آر اور اس کی شراکت دار تنظیموں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دے۔

تبصرے (0) بند ہیں