سپریم کورٹ مقدمات میں بہتر شواہد کی فراہمی کیلئے اے این ایف، پولیس رولز میں تبدیلیوں کی خواہاں

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2023
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے پیشہ ورانہ طور پر کام کریں — فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے پیشہ ورانہ طور پر کام کریں — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں اور متعلقہ وفاقی حکام سے کہا ہے کہ وہ منشیات کو ضبط کرنے، اسے محفوظ کرنے اور ٹرائل کے لیے اسے استعمال کرنے کے دوران ویڈیو ریکارڈنگ اور تصاویر کا بطور ثبوت استعمال یقینی بنانے کے لیے اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) اور پولیس کے قوانین میں ترمیم پر غور کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے میں کہا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے پیشہ ورانہ طور پر کام کریں اور ثبوت حاصل کرنے کے لیے تمام دستیاب قانونی ذرائع استعمال کریں کیونکہ قابل اعتماد پراسیکیوشن اور عدالتی فیصلہ سازی کا عمل عوامی تاثر کو بہتر بناتا ہے۔

چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ناقص تفتیش، شواہد کی عدم موجودگی، پراسیکیوشن کے بری تفتیش سے متاثرہ مقدمات کی وجہ سے عدالتوں پر ضمانت کی درخواستوں کا بوجھ ہے۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 20 ستمبر کو زاہد سرفراز گِل کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد کیے جانے کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر سماعت کی۔

زاہد سرفراز گل کو 29 مئی کو اسلام آباد سیکریٹریٹ پولیس اسٹیشن میں درج ایک مقدمے میں جھوٹا پھنسایا گیا تھا، ان کے خلاف مقدمہ جوابی کارروائی کے طور پر درج کیا گیا تھا جب کہ 17 مئی کو انہوں نے کچھ پولیس اہلکاروں کے خلاف اپنی تحریری شکایت جمع کرائی تھی۔

درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ زاہد گل جائے وقوع پر موجود ہی نہیں تھے لیکن تفتیشی افسر نے اس پہلو کا جائزہ نہیں لیا جب کہ درخواست گزار سے مبینہ طور پر ایک ہزار 833 گرام چرس برآمد ہوئی۔

عدالت عظمیٰ نے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے ساتھ ٹرائل کورٹ کے اطمینان کے لیے اتنی ہی رقم کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے سے مشروط کرتے ہوئے ضمانت دی اور ہائی کورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق اس طرح کی تلاشی کے وقت علاقے کے دو یا زیادہ معزز رہائشیوں کو ساتھ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تلاشی، برآمدگی یا گرفتاری کے وقت پولیس اور اے این ایف کے ارکان ریکارڈ یا تصویر کیوں نہیں لیتے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر پولیس اور اے این ایف اہلکار اپنے موبائل فون کیمروں کو تلاشی، برآمدگی اور گرفتاری کی تصاویر ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کریں تو یہ جائے وقوع پر ملزمان کی موجودگی، نشہ آور اشیا کے ملزمان کے قبضے سے برآمدگی ثابت کرنے کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس سے اے این ایف اور پولیس کے خلاف لگائے جانے والے ان جھوٹے الزامات کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے کہ نشہ آور مواد برآمدگی مذموم مقاصد کے لیے کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں