یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

کہتے ہیں بات سے بات نکلتی ہے اور خیال سے خیال جنم لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ احمد فراز کے ساتھ بھی ہوا اور انہیں بدلتی رُت سے بدلتے انسانی رویے یاد آگئے، یوں اُن کا یہ احساس شعر بالا میں ڈھل گیا۔

حق یہ ہے کہ اس جہان میں ’تبدیلی‘ کے سوا ہر شے تبدیلی کی زد میں ہے۔ اس حقیقت کی نشاندہی یونانی فلسفی ’ہرقليطس‘ نے ان الفاظ میں کی ہے کہ ’The only constant in life is change‘۔ جبکہ علامہ اقبالؒ نے اسی بات کو باالفاظ دیگر بیان کیا ہے کہ ’ثبات ايک تغير کو ہے زمانے میں‘۔

دراصل یہ تمہید اس تبدیلی کے باب میں تھی جو حروف کے مابین واقع ہوتی ہے اور کبھی ایک ہی زبان میں اور گاہے دوسری زبانوں میں معنی کے اشتراک و اختلاف کے ساتھ لفظ کے صورت بدل دیتی ہے۔ مثلاً عربی زبان کے جس لفظ کو ہم ’ورق‘ کے طور پر جانتے ہیں وہ دراصل فارسی کا ’برگ‘ ہے۔ جی ہاں! وہی ’برگ‘ جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے ’برگ آوارہ کی مانند ہیں ٹھکانے میرے‘۔ یہی ’برگ‘ اردو میں ’پتّا‘ کہلاتا ہے۔

فارسی ’برگ‘ نے بصورت ’ورق‘ عربی میں معنی و مطالب کی جو بہار دکھائی ہے اس کے ذکر سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ زیرِ بحث لفظ میں تبدیلی کی بنیادی وجہ وہ صوتی تبادل ہے جس نے ’ب‘ کو ’واؤ‘ سے اور ’گ‘ کو ’ق‘ سے بدل کر ’برگ‘ کو ’ورق‘ بنادیا ہے۔

عربی زبان میں ’وَرَقُ‘ کے اول معنی ’درخت کا پتّا‘ ہیں، جبکہ اس کی واحد ’ورقۃ‘ اور جمع ’اوراق‘ ہے۔

عربی زبان کا ورق درحقیقت فارسی کا برگ ہے
عربی زبان کا ورق درحقیقت فارسی کا برگ ہے

زمانہِ جاہلیت کے عرب میں نوَشت و خوان کا رجحان محدود اور سامان خط و کتابت محدود تر ہونے کی وجہ سے گاہے جن اشیا کو بطور سامانِ نوَشت برتا جاتا ان میں جانور کے شانے کی چوڑی ہڈی، کھال اور چھال کے علاوہ درختوں کے قابلِ نوشت پتے بھی شامل تھے۔ سو ان پتوں کی رعایت سے کاغذ اور لکھنے کے باریک چمڑے کو بھی ’وَرَقُ‘ کہا گیا۔

تمدنی تبدیلیوں کے ساتھ ہر زبان میں الفاظ کے معنی و اطلاقات میں وسعت پیدا ہوتی ہے، سو یہی کچھ ’ورق‘ کے ساتھ بھی ہوا، جب گردشِ زمانہ نے جنس کے بدلے جنس (barter system) سے شروع ہونے والی لین دین کو سیم و زر کے دھاتی سکّوں کی راہ سے کڑکتے کرنسی نوٹوں تک پہنچایا تو سرزمین عرب میں یہ کرنسی نوٹ ’الاوراق المصرفیة، وَرَقُ النَقْد اور وَرَق مَالِيّ‘ کہلائے۔

پھر بات فقط یہاں تک پہنچ کر تمام نہیں ہوئی، بلکہ کاغذ کی نوبنو صورتوں کے لیے وضع کی جانے والی تراکیب میں بھی ’ورق‘ بطور سابقہ برتا گیا۔ مثلاً ٹوائلٹ پیپر ’وَرَقُ الِمرْحَاض‘ کہلایا تو ٹریسنگ پیپر کو ’وَرَق شَفِاف اور وَرَقُ رَسْمٍ‘ کہا گیا جبکہ کاربن پیپر کے لیے ’وَرَقُ الكَرْبُوْن، الوَرَقُ المُفَحَّمُ اور وَرَقُ الشَاھدَة‘ کی سی تراکیب سامنے آئیں۔ نیز ایگزامینیشن پیپر (امتحانی پرچہ) کو ’وَرَقَةُ الاِمْتِحَان‘ اور سینڈ پیپر (ریگ مال) کو ’وَرَقَ الصَّنْفَرة‘ پکارا گیا تو آرٹ پیپر کو ’وَرَق مَصْقْول اور وَرَق نَعَّام‘ کا نام دیا گیا۔

عرب کی سرزمین پر ہر طرح کا کاغذ ورق کہلایا
عرب کی سرزمین پر ہر طرح کا کاغذ ورق کہلایا

اگر ورق کے اس بیان سے اکتا نہ گئے ہوں تو کچھ ذکر فولس کیپ پیپر (foolscap paper) کا بھی ہوجائے۔

13.5 بائی 7 انچ کے مخصوص سائز پیپر کو فولس کیپ (foolscap) کہا جاتا ہے، جسے ہم ایک مدت تک لینڈ اسکیپ (landscape) کے تناظر میں فُل اسکیپ (fullscap) سمجھتے رہے۔ تاہم بعد میں کُھلا کہ ’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا‘۔

واقعہ یہ ہے کہ پیپر کے اس مخصوص سائز کا نام fool یعنی احمق اور cap بمعنی ٹوپی سے مرکب ہے۔ جبکہ دراصل یہ fool’s cap یعنی ’احمق کی ٹوپی‘ ہے، جو کثرتِ استعمال کے سبب فُل اسکیپ ہوگیا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ کاغذ کے اس مخصوص سائز کو احمق کی ٹوپی (foolscap) قرار دینے کا کیا راز ہے؟ تو واقعہ یہ ہے کہ بیتے وقتوں میں اس مخصوص سائز کے کاغذ پر واٹرمارک کی صورت میں fool’s cap طبع ہوتی تھی، احمق کی یہی ٹوپی اس سائز کی وجہ تسمیہ قرار پائی۔

کاغذ پر واٹرمارک موجود ہوتا تھا—تصویر: برٹش میوزیم
کاغذ پر واٹرمارک موجود ہوتا تھا—تصویر: برٹش میوزیم

عربی زبان کے جملہ محاسن میں سے ایک یہ بھی کہ اس کے دامن میں اگر ایک چیز کے لیے دسیوں الفاظ ہیں تو وہیں ایک ہی لفظ دسیوں معنی میں برتا جاتا ہے۔ مثلاً اگر ایک ’شیر‘ کو بالحاظ صفات سو (100) سے زیادہ ناموں سے یاد کیا گیا ہے، تو وہیں ایک لفظ ’عجوز‘ نصف صد (50) معنی میں برتا جاتا ہے۔

ایک عربی قاموس کے مطابق ’عجز‘ سے مشتق لفظ ’عجوز‘ کے معنی میں بزرگ مرد و خاتون، شراب، مصیبت، کشتی، راستہ، ہانڈی، کمان، آگ، موت، کھجور کا درخت، قبضہ، تلوار کی میخ، عافیت، پرہیزگاری، داہنا ہاتھ، بادشاہ، مشک، قبلہ، چاندی، بچھو، بجو، مادہ زبیرا، حجرہ، باڑھ، خط، کتاب، گرم ہوا، گھی، فلک، گھوڑی، رعشہ، گدھ، جھنڈا، بھیڑیا، دنبہ، نسوانی قمیص، آفتاب کا ہالہ، خیمہ، بخار، نیزہ، لڑائی، دوزخ، بھوک، بڑا پیالہ، بیل، توبہ، ڈھال، سوداگر، گائے، بہاؤ، دریا، کنواں، خرگوش، شیر، سوئی اور زمین داخل ہیں۔

سو یہی کچھ ’ورق‘ کے ساتھ بھی ہے کہ ’درخت کا پتّا‘ اس کے اول معنی ہیں نہ کہ واحد معنی۔ اس لیے کہ اہل عرب ’وَرَقُ‘ کو ’پتّے‘ کے علاوہ دنیا، رونقِ دنیا، قوم کا حسن وجمال، قوم کی نوخیز اولاد، قوم کی کمزور اولاد، جوانی کی بہار، لکھنے کا کاغذ، لکھنے کا باریک چمڑا، کتاب کا ورق، زرو مال مویشی، زمین پر پڑا ہوا خون کا دھبا، دوران جراحت کٹ کر گرنے والے لوتھڑے وغیرہ کے معنی میں بھی برتتے ہیں۔

’ورق‘ کے اس طول طویل تذکرے کے بعد اب ’ورق‘ کی رعایت سے مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کا شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں