علی ظفر پر لگائے ہراسانی کے الزامات پر ان کی والدہ نے پہلی بار گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا، ’بیٹے کے بچوں کے سامنے یہ معاملہ ڈسکس نہیں کیا، جس دن علی ظفر پر الزامات عائد ہوئے اس کے اگلے روز مجھے یونیورسٹی میں بچوں کی پڑھانے جانا تھا، پریشان تھی کہ اسٹوڈنٹس میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟

علی ظفر کی والدہ ڈاکٹر کنول امین نے حافظ احمد کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی جہاں انہوں نے پہلی بار علی ظفر پر گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے لگائے الزامات پر پہلی بار گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کہ علی ظفر پر جب الزامات لگے تو اس وقت صورتحال کو کنٹرول کرنا آسان نہیں تھا۔

علی ظفر کی والدہ پجاب یونیورسٹی کی پروفیسر بھی ہیں، پوڈکاسٹ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’جس دن علی ظفر پر الزامات لگے اس کے اگلے روز مجھے یونیورسٹی میں بچوں کی پڑھانے جانا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بچوں کے سامنے کیسے جاوں، ان کا سامنا کیسے کروں گی؟ اسٹوڈنٹس میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟

انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے علی ظفر کے بچوں کو دور رکھا، بیٹے نے بہت بہادری سے معاملے کو ہینڈل کیا۔

علی ظفر کی والدہ نے کہا کہ اس معاملے سے شہرت سمیت جذباتی، مالی طور پر کافی نقصان پہنچا، میں ہمیشہ خواتین کے حقوق کے لیے بات کی ہے، میں یہ دعویٰ نہیں کررہی کہ میں نے فرشتوں جیسے بچے پیدا کیے ہیں، وہ بھی انسان ہیں، اگر ایسی کوئی صورتحال تھی تو دوسرے طریقوں سے بھی اسے ہینڈل کیا جاسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک ہم علی ظفر کے بچوں کے سامنے اس کیس کی بات نہیں کرتے، بچوں کے سامنے والدین کا یہ امیج لانا بہتر نہیں ہے، ہر انسان کہتا ہے کہ وہ سچا ہے لیکن اللہ جانتا ہے کون سچ کہہ رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ الزامات میرے لیے بہت بڑا صدمہ تھے، یہ بات بیٹے کو بھی نہیں معلوم کیونکہ وہ خود اس معاملے سے گزر رہا تھا، میں اس کی بیوی کو سلوٹ پیش کرتی ہوں اگر کوئی اور عورت ہوتی تو گھر میں کوئی اور ڈراما بنا ہوتا، اللہ کا شکر ہے ہم نے ایک ساتھ اس صورتحال کا سامنا کیا، جیسا ہمارا معاشرہ ہے ہم بھی ایک ٹوئٹ کے جواب میں ٹوئٹ کرسکتے تھے ۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ایسے الزامات کئی اساتذہ پر بھی عائد ہوچکے ہیں، جھوٹے الزامات پر کئی لوگ خودکشی کرچکے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خواتین کے ساتھ ہراسانی کے کیسز ہوتے ہیں، ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے۔

علی ظفر کی والدہ نے کہا کہ ’ لیکن ایسے قانون کا استعمال انسان کے اوپر منحصر ہے کہ آپ اپنے فائدے کے لیے استعمال کررہے ہیں یا واقعی ایسا کیس ہے، کچھ لڑکیاں جھوٹے الزامات بھی لگاتی ہیں، میں خواتین سے گزارش کرنا چاہوں گی کہ ایسے جھوٹے کیسز سےمعاشرے کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے، پھر جن لڑکیوں کے ساتھ اصل میں ہراسانی ہوتی ہے لوگ ان پر یقین نہیں کرتے۔ ’

علی ظفر ہراسانی کیس

علی ظفر پر گلوکارہ میشا شفیع نے اپریل 2018 میں جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ساتھی گلوکار نے انہیں اس وقت نشانہ بنایا جب وہ بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔

میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف ٹوئٹ میں الزامات عائد کیے تھے، جس کے بعد گلوکارہ نے گورنر پنجاب اور لاہور ہائی کورٹ سے بھی جنسی ہراسانی کے الزامات سے متعلق رجوع کیا تھا مگر ان کی درخواستیں مسترد ہوگئی تھیں۔

میشا شفیع کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد علی ظفر نے ان کے خلاف لاہور کی مقامی عدالت میں بدنام کرنے کے الزامات کے تحت ہتک عزت کا کیس 2018 میں ہی دائر کیا تھا جو تاحال زیر سماعت ہے اور پانچ سال گزر جانے کے باوجود اس کا کوئی حل نہیں نکلا۔

مذکورہ کیس کے علاوہ بھی علی ظفر اور میشا شفیع نے ایک دوسرے کے خلاف متعدد کیسز دائر کر رکھے ہیں اور ان کے تمام کیسز کا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

مذکورہ کیسز میں علی ظفر اور ان کے گواہوں کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں جب کہ ان سے جرح بھی کی جا چکی ہے، تاہم میشا شفیع کی اپنی اور ان کے کچھ گواہوں کی جرح باقی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں