تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

یہ جون ایلیا کا شعر ہے جو منفرد اسلوب، بے چین طبیعت اور عجیب تر کیفیت کے حامل شاعر تھے۔ مشاعروں میں ان کے اشعار اور حال زار دونوں باعث توجہ ہوتے، گاہے انہیں خود ادراک نہ ہوتا کہ وہ ہر دو اشعار کے بیچ کیا کہہ گزرے ہیں۔ جون کا مفصل تذکرہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، سردست شعر بالا میں وارد چند الفاظ کی گرہ کُشائی کرتے ہیں۔

مصرع اولیٰ کا آغاز ’تعجب‘ سے ہوا ہے جو ’عجب‘ سے مشتق ہے۔ علامہ راغب اصفہانی کے نزدیک ’العجب‘ و ’التعجب‘ اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہو یا جس نوعیت کی چیز عام طور پر نہ دیکھی جاتی ہو اسے ’عجیب‘ کہا جاتا ہے۔

اب آگے بڑھنے سے قبل ’عجیب‘ کی رعایت سے مذکورہ شاعر کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں:

میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

’عجب‘ سے مشتق الفاظ میں سے ایک لفظ ’اعجوبہ‘ بھی ہے جو فارسی اور اردو میں بھی عام برتا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ’عجوبہ‘ دراصل ’اعجوبہ‘ کی تخفیف ہے۔ چونکہ اردو میں ’اعجوبہ‘ کا چلن عام نہیں سو عام لوگوں کے نزدیک ’عجوبہ‘ کا ’اعجوبہ‘ لکھا جانا باعثِ تعجب ہوتا ہے۔ بہرحال میر تقی میر نے ایک مقام پر اس لفظ کو اصل کے مطابق باندھا ہے۔

کشش اس کی ہے ایک اعجوبہ
ڈوبا عاشق تو یار بھی ڈوبا

’عشق‘ سے یاد آیا کہ آغاز میں درج شعر میں ’عشق و عاشقی‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ یوں تو ’عشق‘ عربی الاصل لفظ ہے مگر اس سے مشتق ’عاشقی‘ خالصتاً ’اعجم‘ کی پیداوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ عربی زبان ’عاشقی‘ سے ناآشنا ہے۔

جہاں تک ’عشق‘ کے لفظی معنی کی بات ہے تو یہ ایک ایسی صورتحال سے متعلق برتا جاتا ہے جس کا برسر عام بیان سوقیانہ پن میں داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناصرف لفظ ’عشق‘ بلکہ اس سے پھوٹنے والے الفاظ ’عاشق، معشوق اور عشّاق‘ وغیرہ عربی کی دیگر کتابوں میں تو ملتے ہیں لیکن قرآن و ذخیرہِ حدیث ان الفاظ سے قطعی بے نیاز ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود اسے کایا پلٹ ہی کہا جاسکتا ہے کہ عربی زبان میں ناگفتہ معنی کا حامل ’عشق‘ فارسی اور اس کی نسبت سے اردو میں احسن معنی و مفہوم میں برتا جاتا ہے۔ فارسی اور اردو نظم و نثر پر مشتمل تمام تر صوفیانہ کلام اسی ایک لفظِ ’عشق‘ پر ٹِکا ہے۔ اپنے ان معنی کے ساتھ لفظ ’عشق‘ صوری اعتبار سے عربی اور معنوی لحاظ سے فارسی لفظ بن گیا ہے۔

عربی زبان لفظ ’عاشقی‘ سے ناآشنا ہے
عربی زبان لفظ ’عاشقی‘ سے ناآشنا ہے

یہی ’عشق‘ علامہ اقبالؒ کے ہاں جمال و جلال کا مفہوم لیے ہوئے ہے۔ دیکھیں نظم ’مسجد قرطبہ‘ میں شاعرِ مشرق کیا کہہ رہے ہیں،

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مِضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نُورِ حیات، عشق سے نارِ حیات

جہاں تک خاص عربی پس منظر میں ’عشق‘ کے معنی و مفہوم کی بات ہے تو پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ معاملہ ناگفتہ بہ ہے۔ پھر بھی تجسس برقرار ہو تو کسی بھی معتبر قاموس سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

اب واپس جون ایلیا کے شعر پر آتے ہیں جس کے مصرع ثانی میں لفظ ’لوگ‘ موجود ہے۔ یہ ہندی زبان سے متعلق ہے۔ اس کے معنی میں بہت سے افراد اور متعلقین کے علاوہ شوہر بھی داخل ہے۔

ایسے ہی ’لوگ‘ سے ترکیب ’لوگ باگ‘ ہے جو جنرل پبلک (General Public) اور عربی کی رعایت سے اردو میں مستعمل ’عوام الناس‘ کا مفہوم لیے ہوئے ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جسے رسوائی عام اور جگ ہنسائی کی دوسری صورت ’لوگ ہنسائی‘ ہے۔

’لوگ‘ سے ترکیب ’لوگ باگ‘ ہے جو کہ جنرل پبلک کو  کہتے ہیں
’لوگ‘ سے ترکیب ’لوگ باگ‘ ہے جو کہ جنرل پبلک کو کہتے ہیں

یہ سامنے کی بات ہے کہ حرف ’گ‘ اور حرف ’ ک’ باہم بدل جاتے ہیں۔ جیسے نکہت کو نگہت یا گشاد کو کُشاد بھی لکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی زیرِ بحث ’لوگ‘ کی دوسری صورت ’لوک‘ ہے۔ اس کو آپ ’لوک گیت اور لوک ادب‘ کی سی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں جس کے معنی عوامی گیت اور عوامی ادب کے ہیں۔ پھر جس کو ہم قومی اسمبلی یا ایوانِ زیریں کہتے ہیں وہ پڑوسی ملک بھارت میں ’لوک سبھا‘ ہے۔

اس سے قبل کہ ہم آگے بڑھیں ’لوک سبھا‘ کی رعایت سے ’اسرار جامعی‘ مرحوم کی نظم ’دلی درشن‘ کے چند اشعار ملاحظہ کریں جس میں ’لوک سبھا‘ کا منظر ہمارے ایوان سے کسی طور کم نہیں ہے۔

لوک سبھا کے اندر دیکھا
جوک سبھا کا منظر دیکھا
ایک سے ایک مچھندر دیکھا
آدمی جیسا بندر دیکھا
خون فساد اور دنگا دیکھا
بلا دیکھا رنگا دیکھا

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان اشعار میں ’بلا اور رنگا‘ کس بَلا کا نام ہے۔ تو عرض ہے کہ اس میں ’بَلا‘ کے معنی ’آفت کا پرکالہ‘ اور ’بڑا شریر‘ کے ہیں جبکہ ’رنگا‘ شراب کے نشے میں چُور اور ’پُرجوش‘ شخص کو کہتے ہیں۔ اب ایسے میں جبکہ عام انتخابات سر پر منڈلا رہے ہیں تو امیدواروں کے لیے ’بَلا‘ اور ’رنگا‘ کے الفاظ مناسب ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ سردست ’بَلا‘ کی رعایت سے انورشعور صاحب کا شعر ملاحظہ فرمائیں،

بلا ہو گئے تھے وہ آنے کے بعد
مگر یاد آتے ہیں جانے کے بعد

فارسی میں دھوکا کھایا ہوا شخص ’فریب خوردہ‘ کہلاتا ہے
فارسی میں دھوکا کھایا ہوا شخص ’فریب خوردہ‘ کہلاتا ہے

اب ’دھوکا‘ کا ذکر ہوجائے۔ یوں تو اس ہندی الاصل لفظ کو سمجھنے اور حسبِ موقع برتنے میں کبھی ابہام نہیں ہوا کہ خوش فہمی کی راہ میں بجائے ٹھوکروں کے دھوکا کھاتے آئے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کم ہی غور کیا ہے کہ اس عام فہم لفظ کے اطلاق میں کتنی وسعت ہے اور یہ کہ ہر اطلاقی مفہوم کا راستہ ’کوچہِ دھوکے بازاں‘ پر تمام ہوتا ہے۔

اردو لغت نگاروں اور فرہنگ نویسوں کے نزدیک ’دھوکا‘ حقیقتِ حال سے بے خبر رکھ کر دوسرے کو غلط راہ پر ڈالنے کا نام ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے مترادفات میں ایک طرف ’مکر، فریب اور دغا‘ داخل ہے تو دوسری جانب ’غلط فہمی، مغالطہ، بُھول چُوک اور فریبِ نظر‘ بھی اسی ’دھوکے‘ کے مترادفات ہیں۔

پھر جسے ’سراب‘ کہا جاتا ہے وہ بھی ’دھوکا‘ کہلاتا ہے کہ صحرا کے سفر میں گاہے اس فریب نظر سے وابستہ پڑتا ہے۔ پھر شکاری کا پوشیدہ جال بھی اس ’دھوکا‘ کی تعریف میں شامل ہے کیونکہ بھوک کے ستائے پرندے دانا دیکھ لیتے ہیں دام نہیں دیکھ پاتے، نتیجتاً اسیر ہوجاتے ہیں۔ یہی دھوکا فارسی میں ’فریب‘ ہے یوں ہمارا دھوکا کھانا، فارسی میں ’فریب خوردن‘ ہے۔ جبکہ دھوکا کھایا ہوا شخص ’فریب خوردہ‘ کہلاتا ہے۔ بقول علامہ اقبال،

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں