لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیں۔

غزہ میں جاری جنگ کے تین ماہ بعد اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔ اس تباہی اور بربادی کے پیچھے اسرائیل کا بیان کردہ مقصد یہ ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسرائیل صرف حماس ہی نہیں بلکہ تمام فلسطینیوں کو نسل کشی جیسی اجتماعی سزا دے رہا ہے۔

تو کیا اسرائیل کا مقصد فلسطینیوں کو زبردستی پڑوسی عرب ممالک یا کسی اور جگہ پر دھکیل کر ’گریٹر اسرائیل‘ بنانا ہے؟ اگر یہ مقصد ہے تو اسرائیل یقینی طور پر اپنی وحشیانہ طاقت کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہے اور فلسطینیوں کے عزم و حوصلے کو کم سمجھ رہا ہے۔ یہ فلسطینی اس سرزمین کو نہ چھوڑنے کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں جہاں ان کے اجداد ہزاروں سال سے رہتے آرہے ہیں۔

فلسطین اسرائیل تنازع ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس سرزمین کے دو دعوے دار ہیں یعنی یہودی اور فلسطینی۔ دونوں اس زمین پر اپنے دعوے کے لیے تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس تنازع کی بنیاد یورپ کے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے لیے 1917ء میں برطانیہ کے اس فیصلے میں پنہاں ہیں جسے اعلانِ بالفور کہا جاتا ہے۔

ایک بار جب یہودیوں کی کافی تعداد فلسطین پہنچ گئی اور مقامی عرب آبادی کو بے گھر کر دیا تو برطانیہ 1947ء میں اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں دو الگ الگ ریاستوں، فلسطین اور اسرائیل کے قیام پر اتفاق ہوا۔ تاہم اسرائیل نے کبھی بھی دو ریاستی حل کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اس کے بجائے اس نے بے بس فلسطینیوں پر نسل پرستی جیسا قبضہ مسلط کر دیا ہے۔

اس مسئلے کی ایک نظریاتی جہت بھی ہے۔ اسرائیل کی ریاست دنیا کے یہودیوں کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ نام خود حضرت اسحٰق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے پوتے حضرت یعقوب سے آیا ہے۔ حضرت یعقوب کو اسرائیل بھی کہا جاتا تھا اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا تھا۔ ان کے جانشینوں میں حضرت داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان شامل تھے، دونوں نے اس علاقے میں بڑی سلطنتیں بنائیں۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بچا کرمصر سے اس سرزمین پر لے آئے۔

یہ تمام انبیا مسلمانوں کے لیے یکساں مقدس ہیں۔ پھر یہاں مسجد اقصیٰ ہے جو کہ قبلہ اول تھی۔ حضور نبی اکرمﷺ اسی مسجد سے معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ اسرائیل کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ مسلمان فلسطینیوں کو اس سرزمین میں رہنے سے محروم کرے۔

اسرائیل ’اپنے دفاع‘ کے نام پر اپنے مظالم کا جواز پیش کرتا رہتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو ہونے والی حماس کی کارروائی کسی خلا میں نہیں ہوئی اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے۔ فلسطینی عوام وحشیانہ قبضے کی زد میں ہیں۔ حماس کی کارروائی قابض قوت کے خلاف مزاحمتی کارروائی تھی جو کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت جائز ہے۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں، اسکولوں اور اسپتالوں کو بےدریغ نشانہ بنانے پر نہ صرف عرب یا مسلم ممالک میں بلکہ امریکا سمیت تمام ممالک میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل ان آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کے اس طرح کے شدید ردعمل کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حماس کے ممکنہ حملے سے بےخبر رہنے پر اسرائیل میں اندرونی طور پر تنقید ہورہی ہے۔

مزید یہ کہ نیتن یاہو مضبوط نظر آنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی ملکی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔ امریکا کی حمایت نے بھی اسرائیلی قیادت کو حوصلہ دیا ہوگا۔ ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عرب اور مسلمان ممالک اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات جیسے کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے یا سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے لیے متحد نہیں ہوسکے۔

تاہم اب اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکا فوری اور مستقل جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ کچھ یورپی ممالک، جیسے برطانیہ، اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ان کے عوام غزہ میں شہریوں پر مسلسل بمباری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو اس جنگ کا بھاری مالی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے اور وہاں بہت سے کاروبار بند ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کے لیے ایک بڑا دھچکا یہ ہے کہ عرب اسرائیل تعلقات معمول پر آنے کا عمل بھی رک گیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کو بھی دھچکا لگا ہے۔ خلیجی ممالک سمیت عرب دنیا اب اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے دوسرے آپشنز کی تلاش پر مائل نظر آرہی ہے۔ امریکا کو اس کے ویٹو کا اختیار استعمال کرنے پر بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس ویٹو نے اقوام متحدہ کو غزہ میں جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے سے روک دیا جبکہ اس اقدام کو 153 ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کے لیے اپنی حمایت پر نظرثانی کرے۔

فلسطینیوں کے غیر متزلزل عزم کے پیش نظر، نیتن یاہو کا ایک عظیم تر اسرائیل بنانے کا خواب پورا ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن وہ اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے ساتھیوں کا مقدر یقیناً تاریخ کی کتابوں میں سب سے زیادہ بے رحم اور سنگدل حکومت کے طور پر لکھا جانا ہے۔

پاکستان نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی مسلسل حمایت کی ہے۔ پاکستان نے بھی اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ایسا کرنے کے لیے ملک میں کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ تاہم غزہ کی حالیہ جنگ کے بعد پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکانات اور بھی کم ہیں۔


یہ مضمون 7 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں