لکھاری مصنف ہیں۔
لکھاری مصنف ہیں۔

جدید بھارت کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی کو نتھورام گوڈسے نے گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ نتھورام گوڈسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا رکن تھا۔ گاندھی کا قتل 30 جنوری 1948ء کو ہوا تھا جبکہ 22 جنوری 2024ء کو رام کی جنم بھومی ایودھیا میں پنڈت جواہر لال نہرو کے سیکیولر بھارت کی موت ہوئی۔

یہ کوئی نہیں جانتا کہ رام کا جنم کب اور کہاں ہوا۔ مغل بادشاہ بابر کے حکم پر اس زمین پر مسجد کی تعمیر کے حکم کے بعد سے کم از کم گزشتہ 500 سالوں سے اس زمین پر اختلافات چلتے آرہے ہیں۔ جدید دور کے سیاسی دیوتا کے طور پر رام کے دوبارہ جنم لینے کی تاریخ یعنی 22 جنوری 2024ء کو کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا اور وزیراعظم نریندر مودی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھگوت کے ہمراہ مودی نے ایودھیا میں بھگوان رام کے لیے وقف کردہ عالیشان مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ یہ مندر 1800 کروڑ بھارتی روپے (2 کروڑ 17 لاکھ ڈالر) کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔

میڈیا نے اس تقریب کو بہت توجہ دی ویسے ہی جیسے مودی اور ان کے ہمزاد امیت شاہ چاہتے تھے۔ اس تقریب کے لیے مدعو کیے جانے والوں میں بی جے پی کی فنڈنگ کرنے والے بڑے کاروباری حضرات بھی شامل تھے، بولی ووڈ کے بڑے ستارے جن کے لیے یہ ضرورت سے زیادہ سجا ہوا مندر کسی فلمی سیٹ کی طرح تھا وہ بھی اس تقریب میں مدعو تھے جبکہ بی جے پی کے وہ رہنما بھی موجود تھے جو بڑے عزائم رکھتے تھے لیکن مودی نے ان سب کو نیچا دکھادیا۔

انہیں ناموں میں ایک نام ایل کے ایڈوانی کا بھی تھا جوکہ آر ایس ایس سے اپنی وابستگی اور بی جے پی کے بانی رکن کے طور پر فخر کرتے ہیں جبکہ یہ وہی ہیں جنہوں نے 25 ستمبر 1990ء میں سومناتھ (گجرات) سے شروع ہونے والی پہلی رام رتھ یاترا کا اہتمام کیا۔ اس یاترا کا اختتام ایک ماہ بعد ایودھیا میں ہونا تھا۔ ایل کے ایڈوانی نے اس یاترا کا استعمال اپنے ہندو ساتھیوں کو رام کی جنم بھومی کے معاملے پر حساس بنانے کے لیے کیا تھا اور اسے جائیداد کے مقامی تنازع سے بڑھا کر جذباتی مذہبی جنگ تک پہنچا دیا۔ ڈپٹی وزیراعظم رہنے والے ایل کے ایڈوانی کو قائداعظم کے حوالے سے درست لیکن غلط وقت پر دیے جانے والے حوالے کی وجہ سے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا، وہ حوالہ یہ تھا کہ ان کی اور قائد اعظم کی جائے پیداش کراچی ہے۔

ایودھیا مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہ کرنے والے نمایاں ناموں میں کانگریس کے رہنما تھے جو آج تک نہرو کے سیکیولر بھارت کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ سب سے نمایاں طور پر چار شنکراچاریہ جو پوری (مشرق) کرناٹکا (جنوب)، گجرات (مغرب) اور اتراکھنڈ (شمال) کے اہم مقامات کی نمائندگی کرتے ہیں، انہوں نے بھی رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

چاروں شنکراچاریوں کی شرکت سے تقریب کے مذہبی تقدس میں اضافہ ہوجاتا (البتہ ان کی شرکت لازمی نہیں تھی)۔ بھارت کی تین مورتیاں، ایک ہندوتوا کے چہرے کی نمائندگی کرتیں۔ تاہم چاروں کی عدم موجودگی نے توجہ تو حاصل کی لیکن وہ توجہ منفی تھی۔ اس کو ایسے سمجھ لیں کہ جیسے (یہ مثال مکمل طور پر موزوں نہیں) بادشاہ چارلس کی تقریبِ تاج پوشی باتھ اینڈ ویلز، ڈرہم، ہیرفورڈ اور نورویچ کے پادریوں کی عدم موجودگی میں منعقد ہوتی۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اختلاف نظریاتی ہے۔ مندر ایک وشنو مت کے دیوتا کے لیے وقف ہے جبکہ شنکراچاریہ شیو مت کے ماننے والے ہیں۔ کچھ کے نزدیک مندر کی تعمیر ابھی نامکمل تھی اور اس کا افتتاح قبل از وقت کردیا گیا۔ وزیراعظم مودی کے لیے اس وقت رام مندر کا افتتاح اہم تھا۔ یہ بی جے پی کی جانب سے متعدد انتخابات میں کیے جانے والے وعدوں کی تکمیل تھی۔ کچھ لوگوں کو شبہ ہے کہ شنکراچاریوں میں سے ایک اس بات پر ناراض تھے کہ کانگریس پارٹی نے اقتدار میں ان سے رام مندر ان کے حوالے کرنے کے جو وعدے کیے تھے، موجودہ بی جے پی حکومت نے ان کا احترام نہیں کیا۔

کیا پتا یہ سب سچ ہو یا ان میں سے کچھ بھی سچ نہ ہو۔ ہر مذہب میں مذہبی مقامات کو ہمیشہ سے منافع بخش کاروبار سمجھا گیا ہے۔ ایسا ہی طریقہ رومن کیتھولک چرچ نے بھی اپنایا جہاں وہ دنیا بھر کے لوگوں سے مذہبی مقاصد کے لیے چندہ (جسے پیٹر پینس کہتے ہیں) جمع کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مزارات پر بھی اکثر ٹرسٹیز کی درمیان جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔

اگرچہ ایودھیا کا رام مندر، بھارت میں اب تک بننے والے تمام مذہبی منصوبوں میں سے سب سے زیادہ مہنگا ہے (جس کی فنڈنگ نجی عطیات سے ہوئی) لیکن اسے ترواننتھا پورم میں بھارت کے اعلیٰ ترین پدمنابھاسوامی مندر کے خزانے جتنی دولت حاصل کرنے میں صدیوں نہیں تو کئی دہائیاں تو ضرور لگیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس مندر کے اثاثے بھارتی روپوں میں ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ مالیت کے بنتے ہین جن کا انتظام ٹراوانکور کے شاہی خاندان کے زیرِانتظام ایک ٹرسٹ کے پاس ہے۔ اس مندر کی 8 زیرِزمین تجوریوں میں ’سونے کے بت، سونا، زمرد، قدیم چاندی اور ہیروں‘ کا خزانہ ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے 2011ء میں ان اشیا کی فہرست بنانےکا حکم دیا گیا تھا جس کی تکمیل ابھی باقی ہے۔

ایودھیا مندر کی تعمیر سے رواں سال موسمِ گرما میں ہونے والے انتخابات میں مودی کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ وہ اپنی پوزیشن کو مزید بہتر بنانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ ممکنہ طور پر وہ ماتھورا میں بھگوان کرشن کی جائے پیدائش پر ایک نئے مندر کی تعمیر کا حکم دیں گے۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر نے ان کے لیے راستہ صاف کردیا ہے۔ مودی کو صرف وہاں ماضی میں مندر کی موجودگی کے ثبوت، سپریم کورٹ کی توثیق اور چندے کی ضرورت ہے۔ یوں 2029ء میں بھی بطور وزیراعظم ان کا دوبارہ انتخاب یقینی ہوجائے گا۔

مودی کا ماننا ہے کہ بھگوان رام نے ان کی دعائیں سن لی ہیں جبکہ ایک ارب بھارتیوں کے لیے ملک کو معاشی سپر پاور بنانے میں مودی کی کامیابی ان کی دعاؤں کا جواب ہے۔


یہ مضمون 25 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں