دو دن میں دو فیصلے۔ پہلے ’ریاستی راز افشا کرنے پر‘ 10 سال کی سزا اور پھر ’بدعنوانی‘ پر 14 سال کی سزا۔ پہلے ان کے قریب ترین ساتھی اور اب ان کی شریک حیات کو بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔

ریاست اپنی دشمنی ظاہر کرنے میں کس حد تک جائے گی؟ 8 فروری کے انتخابات تک مزید ’سرپرائز‘ آسکتے ہیں۔ فی الحال ہم صرف بیٹھ کر تماشہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح حقائق، ضابطہ کار، قوانین اور ادارے ان لوگوں کی مرضی کے سامنے جھکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ نہ چاہیں کوئی بھی منتخب رہنما آزادی کا حق نہیں رکھتا۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران تحفے کے طور پر ملنے والے زیورات کے سیٹ کی قیمت کم بتانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج کے ذریعے سنایا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 2024ء کے انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والے رہنما کو سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کو گزشتہ سال نومبر میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا کا فیصلہ بھی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گا۔

اتفاق سے یا شاید جانتے بوجھتے ہوئے ان ہی جج صاحب کو اسی طرح کے ایک اور کیس کی سماعت کرنی ہے جو توشہ خانہ سے حاصل کی گئی اشیا سے متعلق ہے۔ اس مقدمے میں متعدد گاڑیاں شامل ہیں جو مبینہ طور پر نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پاس رکھی تھیں۔

تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جج کی توجہ اور توانائیاں عمران خان اور ان کی شریک حیات کو ’احتساب‘ برانڈ کا انصاف فراہم کرنے کے لیے وقف کردی گئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس زیر التوا دیگر معاملات کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔

وہ 11 سال نیب کی احتساب عدالتوں میں رہنے کے بعد مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں۔ احتساب عدالتوں کے زیادہ تر جج تین سال کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ اپنی توسیعی مدت کے دوران انہوں نے 4 سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کا فیصلہ کیا ہے، یہ سبھی اس وقت ان کے سامنے لائے گئے جب ان کو دی گئی چھوٹ اپنے اختتام کو پہنچی۔

یہاں کچھ ذکر نیب کا بھی کرلیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف طاقتوروں کی خواہشات کی بنیاد پر سیاسی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ سیاست دان کو ملی چھوٹ ختم ہونے پر نیب اس پر پِل پڑتا ہے اور ہدف بنائے گئے سیاست دانوں کے خلاف ہر طرح کے ’بدعنوانی‘ کے مقدمات قائم کرکے انہیں قانونی چارہ جوئی میں پھنسا دیتا ہے۔

بعض اوقات، ضابطے کی پروا کیے بغیر کمزور شواہد کی بنیاد پر قانونی کارروائی کے ذریعے ایک یا دو سزائیں سنادی جاتی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ زیادہ تر مقدمات اور سزائیں چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتی ہیں اور جن پر کبھی سنگین بددیانتی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ آخرکار سیاسی شہید بن کر واپس آجاتے ہیں۔

یہ ایک ایسا چکر ہے جس نے دھیرے دھیرے احتساب کے خیال کو کسی بھی قانونی جواز سے محروم کر دیا ہے۔ اس تازہ ترین سزا سے بھی یہ لگتا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔


اس اداریے کو انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں