پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں 52 سینیٹرز گزشتہ شب ریٹائر ہو گئے جس کے بعد سینیٹ اب کم از کم 3 ہفتوں تک غیر فعال رہے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر کی مدت 6 سال ہوتی ہے لیکن ان میں سے نصف ہر 3 سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں اور خالی نشستوں پر انتخابات کرائے جاتے ہیں، یہ انتخابات عام طور پر سینیٹرز کی مدت ختم ہونے سے کچھ روز قبل ہوجاتے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہو سکا۔

عام انتخابات میں تاخیر، انتخابات کے بروقت انعقاد میں الیکشن کمیشن کی ناکامی کی وجہ سے الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی کے سبب یہ انوکھی صورتحال سامنے آئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق 48 نشستوں پر پولنگ 2 اپریل کو ہوگی، الیکشن کمیشن جمعرات (14 مارچ) کو انتخابی شیڈول جاری کرے گا۔

سینیٹ کی ان 4 نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے جو پہلے قبائلی علاقوں کے لیے مخصوص ہوتی تھیں کیونکہ یہ نشستیں 25ویں ترمیم کے تحت خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ختم کر دی گئی ہیں۔

ہر صوبے سے 7 جنرل، 2 خواتین اور 2 ٹیکنوکریٹ/علما کی نشستیں ہوں گی، ساتھ ہی 2 نشستیں غیر مسلموں کے لیے مختص ہوں گی، علاوہ ازیں اسلام آباد سے 2 سینیٹرز منتخب کیے جائیں گے، جن میں سے ایک جنرل سیٹ پر اور دوسرا ٹیکنوکریٹ/علما کی نشست پر منتخب ہوگا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پہلے ہی 15 فروری کو بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد آئینی تقاضے کے تحت عہدہ خالی کردیا تھا۔

ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی، قائد ایوان اسحٰق ڈار اور قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم بھی شامل ہیں۔

کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ اسلام آباد کے علاوہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبائی الیکشن کمشنرز سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمعے اور ہفتہ کو اپنے متعلقہ ریٹرننگ افسران کے پاس جمع کراسکتے ہیں۔

ریٹائر ہونے والوں میں سے صرف 7 کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، ان میں اپوزیشن لیڈر کے علاوہ اعظم سواتی، فیصل جاوید خان اور ولید اقبال سمیت دیگر شامل ہیں۔

پہلی بار 2015 میں سینیٹ میں آنے والی پارٹی پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کی وجہ سے مارچ 2021 میں سینیٹ کی واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی۔

پیپلزپارٹی کے 21 میں سے 12 سینیٹرز اور مسلم لیگ (ن) کے 16 میں سے 11 سینیٹر کی مدت بھی مکمل ہونے والی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے اسحٰق ڈار، حافظ عبدالکریم، آصف کرمانی، رانا محمود الحسن، ڈاکٹر مصدق ملک، شاہین خالد، نزہت صادق، کامران مائیکل، اسد اللہ خان جونیجو، مشاہد حسین سید اور صابر شاہ گزشتہ روز ریٹائر ہو گئے۔

پیپلز پارٹی کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں رخسانہ زبیری، خالدہ سکندر، امام دین شوقین، مولا بخش چانڈیو، محمد علی شاہ، رضا ربانی، وقار مہدی، کیشو بائی، قرۃ العین مری، انور لال دین، روبینہ خالد اور شمیم آفریدی شامل ہیں، بہرامند تنگی کی مدت بھی گزشتہ روز پوری ہوگئی جنہیں مسلم لیگ (ن) سے نکال دیا گیا تھا لیکن وہ بطور سینیٹر عہدے پر برقرار رہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے طلحہ محمود اور مولوی فیض محمد، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے فروغ نسیم اور بلوچستان عوامی پارٹی کے احمد خان، کہودہ بابر، نصیب اللہ بازئی اور ثنا جمالی بھی بطور سینیٹر ریٹائر ہوگئے۔

نیشنل پارٹی کے محمد اکرم اور طاہر بزنجو، جماعت اسلامی کے واحد سینیٹر مشتاق احمد اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے مظفر حسین شاہ کی بھی بطور سینیٹر مدت پوری ہوگئی۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار شفیق ترین اور عابدہ عظیم ریٹائر ہونے والے ہیں جبکہ آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہونے والے دلاور خان، ہلال الرحمٰن اور ہدایت اللہ کی مدت پوری ہوچکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں