کشمیری صحافی آصف سلطان کو 5 سال سے زیادہ قید میں رہنے کے بعد 27 فروری کو جیل سے رہا کرنے کے بعد دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔

برطانوی نشریاتی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے صحافی آصف سلطان کو مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر کے مقامی پولیس اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا۔

صحافی کو 27 فروری کو رہا کیا گیا تھا، رہا ہونے کے بعد وہ اپنے گھر واپس گئے جہاں انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ بمشکل 5 گھنٹے گزارے جس کے بعد انہیں مقامی پولیس اسٹیشن بلایا گیا اور وہیں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

آصف سلطان کے والد محمد سلطان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔‘

بی بی سی نے کشمیر میں پولیس حکام سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا لیکن انہوں نے ابھی تک کسی سوالات کا جواب نہیں دیا کہ آصف سلطان کو دوبارہ کیوں گرفتار کیا گیا اور دیگر صحافیوں کو کیوں حراست میں لیا گیا۔

سماجی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے جس کے تحت کسی شخص کو ایک مقدمے میں ضمانت ملنے کے بعد اسے دوسرے الزام کے تحت فوری طور پر دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے، بنیادی طور پر ان کی حراست کی مدت میں توسیع کی جاتی ہے۔

تاہم آصف سلطان واحد مقامی صحافی نہیں ہیں جو ایسے ہتھکنڈوں کی زد میں آئے ہوں، قبل ازیں سجاد گل کو جنوری 2022 میں ’مجرمانہ سازش‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور 9 دن کے بعد ضمانت دے دی گئی تھی، لیکن پھر انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے کر جیل میں منتقل کر دیا گیا۔

گزشتہ سال نومبر میں مقامی عدالت کی جانب سے انہیں رہا کرنے کا حکم دینے کے باوجود وہ اب تک پولیس کی حراست میں ہے۔

یاد رہے کہ 36 سالہ آصف سلطان کو ابتدائی طور پر ستمبر 2018 میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، ان پر ’عسکریت پسندوں کو پناہ دینے‘ کے الزام تھا۔

چار سال بعد، 5 اپریل 2022 کو، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اسے یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی کہ تفتیشی ایجنسیاں کسی بھی عسکریت پسند گروپ سے اس کا تعلق ثابت نہیں کر سکیں۔

تاہم اس فیصلے کے صرف چار دن بعد سری نگر کے ضلع مجسٹریٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان کی نظربندی کا حکم دیا۔

11 دسمبر کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آصف سلطان کی نظربندی کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں