کشمیری صحافی آصف سلطان کو 5 سال سے زیادہ قید میں رہنے کے بعد جیل سے رہا کر دیا گیا۔

دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق انہیں 2 ماہ سے زیادہ کی تاخیر کے بعد 27 فروری کو رہا کیا گیا۔

کشمیر ہائی کورٹ نے طریقہ کار کی خامیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ریلیف دیا، آصف سلطان کی رہائی جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی جانب سے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی کے حکم کو منسوخ کرنے کے 78 دن بعد ہوئی ہے۔

کشمیری صحافی آصف سلطان اتر پردیش کی امبیڈکر نگر ڈسٹرکٹ جیل میں 5 سال سے زیادہ عرصے سے قید تھے، ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی وہ نظربند رہے کیونکہ محکمہ داخلہ اور سری نگر کے ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے ’کلیئرنس لیٹر‘ زیر التوا تھے۔

ابتدائی طور پر ستمبر 2018 میں آصف سلطان کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، ان پر ’عسکریت پسندوں کو پناہ دینے‘ کے الزام تھا۔

چار سال بعد، 5 اپریل 2022 کو، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اسے یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی کہ تفتیشی ایجنسیاں کسی بھی عسکریت پسند گروپ سے اس کا تعلق ثابت نہیں کر سکیں۔

تاہم اس فیصلے کے صرف چار دن بعد سری نگر کے ضلع مجسٹریٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان کی نظربندی کا حکم دیا۔

11 دسمبر کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آصف سلطان کی نظربندی کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔

اس قانون کے تحت کسی بھی فرد کو قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر دو سال تک اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سال تک بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

جسٹس ونود چٹرجی کول نے مشاہدہ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکام سلطان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ پر غور کرتے ہوئے اسے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے رہے ہیں لیکن وہ ایف آئی آر یا مجرم کی دفعہ 161 کے تحت درج بیانات جیسی ضروری دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں