تاجر سے مبینہ طور پر ایک کروڑ روپے سے زائد کی نقدی چھیننے اور حبس بے جا میں رکھنے پر زمان ٹاؤن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) راؤ رفیق اور دو اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔

ملزمان کو گزشتہ روز حراست میں لیا گیا تھا لیکن آج انہیں باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا گیا۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشن شرقی امیر سعود مگسی نے گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کے مطابق، زمان ٹاؤن اسٹیشن کے ایس ایچ او راؤ رفیق اور دو دیگر پولیس اہلکاروں کو جمعہ کو ایک کروڑ 10لاکھ روپے سے زائد کی نقدی چھیننے اور ایک مقامی تاجر کو غیر قانونی طور پر قید میں رکھنے کے الزام میں باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے قبضے سے لوٹی گئی کچھ رقم بھی برآمد کر لی گئی ہے۔

ایس ایس پی نے بتایا کہ ظفر نامی مخبر کی اطلاع پر زمان ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او راؤ رفیق نے اپنی ٹیم کے ہمراہ شکایت کنندہ کو سہراب گوٹھ کے قریب سے اٹھایا اور اس سے 1کروڑ 18 لاکھ روپے کی نقدی چھین لی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی دوران زون شرقی کی پولیس لیاری ایکسپریس وے پر پہنچی اور جب ان سے ان کا مقصد پوچھا گیا تو وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا لہٰذا انہیں سچل تھانے لایا گیا اور اگلے دن شکایت کنندہ محمد خان نے ان کی شناخت کر لی۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایس ایچ او اور اس کا مخبر نقدی ہڑپ کرنے میں ملوث ہیں اور مفرور مخبر کی گرفتاری اور اس سے مزید نقدی برآمد کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

معاملہ کیا تھا؟

پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 395 اور 342 کے تحت معاملے کی ایف آئی آر درج کی تھی جس میں شکایت کنندہ محمد خان نے موقف اپنایا تھا کہ ان کا ذاتی کاروبار ہے اور وہ اپنے کاروباری شراکت دار فیصل اور دیگر کے ساتھ دو الگ الگ کاروں میں سفر کر رہے تھے جن میں تین بیگز میں ایک کروڑ 18 لاکھ روپے نقد موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سپر ہائی وے سے لیاری ایکسپریس وے کی طرف نیول کالونی میں اپنے گھر جا رہے تھے کہ 11 مارچ کی صبح تقریباً 4 بج کر 20 منٹ پر ایک پولیس موبائل اور سلور کار کے ساتھ کھڑے یونیفارم میں ملبوس آٹھ سے نو پولیس اہلکار اور ایک بغیر وردی کے اہلکار نے انہیں لیاری ایکسپریس وے پر ٹول پلازہ جنکشن کے قریب روکا۔

وردی والے پولیس اہلکاروں نے درخواست گزار اور دیگر افراد کو اپنی گاڑیوں سے باہر آنے کو کہا، ان سے موبائل فون چھین لیے اور ان کی گاڑیوں کی تلاشی لینے لگے جبکہ ان کے ساتھی فیصل کی گاڑی کو لاک کر کے اس کی چابی چھین لی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے انہیں زبردستی انہی کی کار کی پچھلی سیٹ پر بٹھایا اور ان میں سے ایک نے سر پر پستول رکھ دیا، وہ انہیں کار میں لے گئے جبکہ ان کے ساتھیوں اور دیگر کو وہیں چھوڑ دیا۔

شکایت کنندہ کے مطابق پولیس اہلکار انہیں مختلف مقامات پر لے گئے اور ڈیڑھ گھنٹے تک شہر میں گھماتے رہے اور پھر گاڑی روکنے کے بعد انہیں گاڑی میں بند کرکے فرار ہوگئے جبکہ گاڑی میں موجود رقم بھی زبردستی چھین لی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ کچھ دیر بعد میں نے اپنی آنکھوں سے پہٹائی تو صبح کے 6 بج رہے تھے اور انہوں نے راہگیروں کو متوجہ کرنے کے لیے گاڑی کا دروازہ دھڑدھڑانا شروع کیا جن میں سے ایک نے دروازہ کھولا اور بتایا کہ وہ اس وقت نارتھ ناظم آباد کے علاقے شارع نورجہاں کی حدود میں ہے۔

تاجر نے بتایا کہ پولیس والے ان کا موبائل نہیں لے گئے تھے اس لیے انہوں نے فوری طور پر دوستوں سے رابطہ کر کے انہیں وہاں بلایا اور موقع سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وردی میں ملبوس پولیس اہلکار سلور رنگ کی کار میں نقدی اپنے ہمراہ لے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں