احتساب عدالت اسلام آباد نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو تینوں ریفرنسز (ایون فیلڈ، العزیزیہ ملز اور فلیگ شپ ریفرنس) میں بری کردیا۔

احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریفرنسز میں حسن اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

اس موقع پر حسن اور حسین نواز کی جانب سے قاضی مصباح الحسن ایڈوکیٹ کے علاوہ ان کے پلیڈر رانا محمد عرفان بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

احتساب عدالت نے استفسار کیا کہ بریت کی درخواست پر آپ کی رپورٹ آنی تھی، جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب اظہر مقبول نے بتایا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں، عدالت اس کیس کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

عدالت نے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب اظہر مقبول سے مکالمہ کیا کہ ہم آپ کا بیان ریکارڈ کرلیتے ہیں۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب اظہر مقبول نے عدالت کو بتایا کہ آپ میرا بیان ریکارڈ کرلیں، مزید کہا کہ یہ کیس نیب ترامیم سے متعلق نہیں ہے، اس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کی حد تک فیصلہ بھی کر چکی۔

نیب پراسیکیوٹر اظہر مقبول نے مؤقف اپنایا کہ مریم نواز کی بریت کے خلاف ہم نے اپیل دائر نہیں کی تھی، مزید کہنا تھا کہ حسن نواز، حسین نواز پر سازش اور معاونت کا الزام ہے، حسن نواز اور حسین نواز کے کیسز میں مرکزی ملزمان بری ہوچکے ہیں۔

وکیل قاضی مصباح ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ جن دستاویزات پر عدالت نے مریم نواز کو بری کیا انہی پر نواز شریف کی بریت ہوئی، نیب نے مریم نواز کی بریت کے خلاف اپیل دائر نہیں کی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

وکیل صفائی قاضی مصباح کی جانب سے ریفرنسز سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا گیا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز کے خلاف ریفرنس میں نیب کوئی شواہد پیش نہیں کر پائی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز، نواز شریف کو کیس سے بری کردیا تھا۔

وکیل قاضی مصباح نے دلائل دیے کہ العزیزیہ کیس میں ٹرائل کورٹ نے سزا دی، دسمبر 2023 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی اپیل منظور کی، نیب نے نواز شریف کی اپیل منظور ہونے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔

وکیل قاضی مصباح نے مؤقف اپنایا کہ نیب نے مزید شواہد عدالت کے سامنے نہیں رکھے، جس کے بعد حسن نواز، حسین نواز پر مقدمہ چلایا جائے، جو شواہد موجود ہیں ان پر بھی حسن نواز ، حسین نواز کو سزا نہیں ہو سکتی۔

وکیل قاضی مصباح کا کہنا تھا کہ حسن نواز، حسین نواز کے خلاف کیس چلانا عدالتی وقت ضائع کرنا ہوگا، کیس میں مرکزی ملزم بری ہوگئے تو معاونت کے الزام میں کیس چل ہی نہیں سکتا۔

وکیل قاضی مصباح نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف ٹرائل کورٹ سے بری ہوگئے تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب نے 29 نومبر 2023 کو اپنی اپیل واپس لے لی تھی۔

احتساب عدالت نے حسن نواز، حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو 2 سنایا جائے گا۔

بعد ازاں، عدالت نے تقریباً ایک گھنٹے 40 منٹ کی تاخیر کے بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حسن نواز اور حسین نواز کو 7 سال اشتہاری رینے کے بعد تینوں ریفرنسز سے بری کردیا۔

واضح رہے کہ 14 مارچ کو احتساب عدالت اسلام آباد نے حسن اور حسین نواز کے تین ریفرنسز (ایون فیلڈ، العزیزیہ ملز اور فلیگ شپ ریفرنس) پر اشتہاری کا اسٹیٹس ختم کرتے ہوئے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے تھے اور 50 ہزار روپے مچلکوں کی عوض ضمانت بھی منظور کی تھی۔

پس منظر

یاد رہے کہ 2017 میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔

مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔

عدالتی حکم کے مطابق نیب نے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس تیار کیا تھا اور عدالت نے فلیگ شپ کیس میں 31 دسمبر 2018 کو دونوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جبکہ نواز شریف، اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا۔

ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا، بعد ازاں عدالت نے حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں