پاکستان ریلوے کی ملکیتی تقریباً 10 ہزار ایکڑ زمین پر لوگوں کے غیر قانونی قبضے اور ان میں سے بیشتر زمین کو ملک بھر میں رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم مختلف مسائل کے باوجود ریلوے کو امید ہے کہ وہ 30 جون کو ختم ہونے والے موجودہ مالی سال میں 5 ارب روپے کا زمینی محصول وصول کرنے کا ہدف حاصل کر لے گا۔

جمعہ کو ’ڈان‘ سے بات کرتے ہوئے پاکستان ریلوے کے ایک سینیئر عہدیدار نے افسوس کا اظہار کیا اور بتایا کہ ملک بھر میں ہماری کُل ایک لاکھ 68 ہزار 858 ایکڑ زمین میں سے 9 ہزار 644 ایکڑ زمینوں پر قبضہ مافیا نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے، اگرچہ ہم اسے غیر قانونی قابضین سے واگزار کرانے اور تجاوزات ہٹانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن صوبائی حکومتیں، جن کو ریاستی اراضی کی محافظ سمجھا جاتا ہے، ہماری خاطر خواہ مدد نہیں کر رہی ہیں۔

’ڈان‘ کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان ریلوے کی کل زمین ( ایک لاکھ 68 ہزار 858 ایکڑ) میں ریلوے کی جانب سے آپریشنل مقصد کے لیے ایک لاکھ 64 ہزار 26 ایکڑ زمین کو آپریشنل مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے بعد 6 ہزار 61 ایکڑ کو مستقبل کے آپریشنل استعمال کے لیے مختص کیا گیا ہے، 4 ہزار 385 ایکڑ زمین کو اسٹیشن اور اسٹاف کالونیوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے، 2 ہزار 987 کو حکومت اور دفاعی اداروں کو لیز پر دی گئی، 562 ایکڑ کو ریگولرائز کچی آبادیوں کے لیے جبکہ 308 ایکڑ کو ممکنہ تجارتی آمدنی اور 4 ہزار 692 ایکڑ بنجر زمین استعمال میں نہیں ہے لیکن اسے زراعت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں پاکستان ریلوے کے تمام 9 ڈویژنوں میں اب تک 12 ہزار 777 ایکڑ زمین سرکاری اور نجی جماعتوں کو لیز پر دی گئی ہے، لیز پر دی گئی زمین میں 9 ہزار 260 ایکڑ زراعت اور 530 ایکڑ اراضی کمرشل مقاصد کے لیے دی گئی ہے۔

راولپنڈی ڈویژن میں 654 ایکڑ زراعت اور 86 ایکڑ کمرشل اراضی لیز پر دی گئی ہے جبکہ 162 ایکڑ سرکاری محکموں کو لیز پر دی گئی ہے، اس کے بعد لاہور ڈویژن میں 2024 ایکڑ زراعت، 150 ایکڑ کمرشل اور ایک ہزار 436 ایکڑ زمین سرکاری محکموں کو لیز پر دی گئی ہے۔

مغل پورہ (لاہور) ڈویژن میں 14 ایکڑ (تجارتی زمین) لیز پر دی گئی ہے، اس ڈویژن میں 17 ایکڑ زمین حکومت، محکمہ دفاع کو لیز پر دی گئی ہے، ملتان ڈویژن میں 5 ہزار 531 ایکڑ زرعی اراضی لیز پر دی گئی، جن میں 120 ایکڑ کمرشل اور 370 ایکڑ سرکاری محکموں کو لیز پر دی گئی ہے۔

کوئٹہ، پشاور اور سکھر میں بھی ریلوے کی زمینوں کا بڑا حصہ لیز پر دیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں پاکستان ریلوے کے افسر نے کہا کہ ریلوے نے اصولی طور پر یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ اراضی کو متعلقہ قوانین کے تحت کچی آبادی قرار نہ دیا جائے جو قابضین کو زمین الاٹ کر کے اس طرح کی جائیدادوں کو ریگولرائز کرتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان ریلوے نے لینڈ ریونیو کی وصولی کی مد میں اب تک 3 ارب روپے اکٹھے کیے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ 30 ​​جون تک ہم 5 ارب روپے کا کل ہدف حاصل کر لیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں