وزیر اعظم شہباز شریف کے اعلیٰ عدالتوں کے تقریباً 17 ججوں کو موصول ہونے والے ’مشکوک خطوط‘ کا معمہ حل کرنے کے عزم کے اظہار کے ساتھ پولیس کا انسداد دہشت گردی محکمہ ان خطوط کے کو بھیجنے والوں کا سراغ لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ خطوط جنرل پوسٹ آفس راولپنڈی سے بھیجے گئے لیکن اس کے احاطے میں سی سی ٹی وی کیمروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے خطوط بھیجنے والوں کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

عدالتی عملے کی جانب سے ان خطوط کو کھولے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا گیا کہ لفافوں میں موجود مشکوک پاؤڈر ایک نقصاندہ مادہ ’انتھراکس‘ ہے جو جلد سے رابطے کے بعد انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔

تاہم فرانزک تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو بھیجے گئے خطوط میں اینتھراکس نہیں بلکہ سنکھیا ملے کاربوہائیڈریٹس پائے گئے ہیں۔

ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سنکھیا اپنی خالص شکل میں نہیں تھا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ خطوط میں انتھراکس یا کسی دوسرے زہریلے کیمیکل کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ تفتیشی ایجنسیوں کو حملہ آوروں کو پکڑنے کے لیے لفافوں پر انگلیوں کے نشانات ٹریس کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کو صوبائی دارالحکومت میں لگائے گئے اپنے نگرانی کرنے والے کیمروں کے ذریعے مشکوک خطوط بھیجنے والوں کو ٹریس کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

جمعرات کو کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سازش کا پردہ فاش کرنے کے عزم ظاہر کیا جس کا مقصد بظاہر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو مشتبہ پاؤڈر والے خطوط کے ذریعے دھمکیاں دینا تھا۔

وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ میں اپنی تقریر میں کہا حکومت حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے احساس ذمہ داری کے ساتھ معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

جنرل پوسٹ آفس

اسلام آباد میں جاری تفتیش میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل شہزاد ندیم بخاری کی سربراہی میں سی ٹی ڈی کی ٹیم نے سراغ لگایا کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو خطوط راولپنڈی کے جنرل پوسٹ آفس سے بھیجے گئے ہیں۔

تحقیقات سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹس کے ججوں کو ان ’زہریلے‘ خطوط کی ترسیل کے بعد تحقیقاتی ٹیم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی کہ یہ خطوط راولپنڈی کے جنرل پوسٹ آفس سے بھیجے گئے تھے اور بھیجنے والے نے یہ تمام خطوط ایک پوسٹ باکس کے ذریعے ارسال کیے۔

لیٹر باکس کی شناخت ہو گئی ہے لیکن بھیجنے والے کی شناخت ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے بھیجنے والے کا سراغ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور متعلقہ حکام کو فوٹیج فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ یہ خطوط پوسٹ آفس میں کون لایا کیونکہ پرہجوم احاطے کے اندر کیمرے نہیں لگے، ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے ملحقہ دفاتر اور عمارتوں کو اپنی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز شیئر کرنے کو کہا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے ڈان کو بتایا کہ محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کیس کی تحقیقات کر رہا ہے، ان کے مطابق ڈی آئی جی آپریشنز سید شہزاد ندیم بخاری ذاتی طور پر تفتیش کی نگرانی کر رہے ہیں، انہوں نے امید ظاہر کی کہ تحقیقاتی ٹیم جلد خطوط بھیجنے والوں کا سراغ لگا لے گی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو بھی مشکوک خط موصول

ذرائع نے بتایا ہے کہ آج لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو بھی مشکوک خط موصول ہوا ہے۔

اس معاملے میں اسپیشل برانچ کے طرف سے مقرر کیے گئے نمائندہ محمد انیس نے جسٹس علی باقر نجفی کے سیکریٹری کی طرف سے موصول کرائے گئے 5 خطوط میں سے ایک مشکوک خط کی تصدیق کی ہے۔

ذرائع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو ملنے والے خطوط کی تعداد 6 ہو گئی، مشکوک خط سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں مشکوک خط ملنے والے ججوں میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججوں کو پاؤڈر بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے تھے جس میں ڈرانے دھمکانے والا نشان موجود تھے۔

عدالتی ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

بعد ازاں 3 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ کے 4 ججز اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے کا انکشاف سامنے آیا تھا۔

سپریم کورٹ کے جن ججز کو یہ دھمکی آمیز خطوط بھیجے گئے تھے اُن میں چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں جنہیں یہ خطوط یکم اپریل کو موصول ہوئے تھے۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ چاروں خطوط میں پاؤڈر پایا گیا اور دھمکی آمیز اشکال بنی ہوئی تھیں، اِن چاروں ججز کو خطوط موصول ہونےکا مقدمہ محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) میں درج کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں