اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے سوموٹو کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے معاملے پر ردعمل کے لیے تجاویز طلب کر لی ہیں۔

سپریم کورٹ کا حکمنامہ چھ صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کی ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے 7 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے حکمنامے کے بارہ پیراگراف سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیراگراف ایک سے 12 تک سے اتفاق کے لیے وہ خود کو قائل نہیں کر سکے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ وزیراعظم کو طلب کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس سوال پر فل کورٹ نے ابھی غور کرنا ہے جبکہ حکومت کے کمیشن بنانے سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے یا نہیں یہ بھی ابھی طے ہونا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو سوال عدالت کے سامنے ہیں ان پر ابھی رائے دینا مناسب نہیں۔

معاملے پر اعلیٰ عدلیہ کا بطور ادارہ ردعمل کیا ہونا چاہیے اس پر سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل،سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کر لیں تجاویز طلب کی ہیں۔

حکمنامہ میں تجاویز کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ کس طریقہ کار کے تحت مستقبل میں ایسے معاملات سے بچا جا سکتا ہے، ذمہ داروں کا تعین اور ان کے خلاف کاروائی کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے اس حوالے سے تجاویز دی جائیں۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، ہائی کورٹس کے رجسٹرار اور وفاقی حکومت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کیے جائیں کیونکہ قانون کی آئینی تشریح کے حوالے سے معاملات سوالات زیر غور ہیں۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ سینئر وکیل حامد خان اور خواجہ احمد نے نشاندہی کی تھی کہ انہوں نے خط سے متعلق آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت پٹیشش دائر کی ہے لہٰذا اسے فوری سنا جائے لیکن انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کورٹ کے تحت سنا جا رہاہے اس لیے اسے پہلے تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے نظرثانی کے لیے پیش کیا جائے گا اور کمیٹی کی جانب سے منظوری کے بعد سنا جائے گا۔

عدالت اب مقدمے کی سماعت 30 اپریل 2024 بروز منگل کو دن ساڑھے 11 بجے کرے گی۔

واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

اس کے ایک روز بعد مختلف حلقوں سے اس کی تحقیقات کے مطالبات سامنے آئے، جس کے پیشِ نظر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا۔

28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔

31 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انٹیلی جنس اپریٹس کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

یکم اپریل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں