۔ — رائٹرز فوٹو
۔ — رائٹرز فوٹو

ہندوستان میں کمرشل سروگیسی سالانہ ایک ارب ڈالرز کا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔

حمل کے دوران، بہت سی سروگیٹ مائیں مخصوص گھروں میں رہتی ہیں جنہیں تنقید کرنے والے بچہ فیکٹریوں کا نام دیتے ہیں۔

پیسوں کے عوض بے اولاد جوڑوں کے لیے بچے پیدا کرنے والی ایسی خواتین کی زندگی کیسی ہوتی ہے اور وہ کیا سوچتی ہیں؟

ایسی ہی ایک سروگیٹ ماں اٹھائیس سالہ وسنتی کہتی ہیں کہ ہندوستان میں خاندان کی بہت اہمیت ہے۔ 'آپ اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں'۔

'میں نے بھی اپنے بچوں کی خاطر سروگیٹ بن گئی ہوں کیونکہ میں انہیں وہ سب دینا چاہتی ہوں جن کا میں نے خواب دیکھ رکھا ہے'۔

وسنتی ان دنوں حاملہ ہیں لیکن ان کی کوکھ میں ان کا اپنا نہیں بلکہ ایک جاپانی جوڑے کا بچہ پل رہا ہے اور اس کام کے لیے انہیں آٹھ ہزار ڈالرز معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

یہ وسنتی کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ رقم ہے کیونکہ وہ اس سے ایک نیا مکان بنانے کے علاوہ اپنے پانچ اور سات سال کے دو بچوں کو انگریزی سکول میں پڑھا سکتی ہے۔

وسنتی کا کہنا ہے کہ وہ اس پر دل کی گہرائیوں سے خوش ہیں۔

ان کی کوکھ میں جاپانی جوڑے کے ایمبریو ڈالنے کا عمل گجرات کے ایک چھوٹے شہر آنند میں کیا گیا تھا جس کے بعد وہ اگلے نو مہینے اس کام کے لیے مختص ایک قریبی گھر میں گزار رہی ہیں۔

اس گھر میں وسنتی جیسی سو دوسری سروگیٹ مائیں بھی رہ رہی ہیں۔

یہ سب خواتین ڈاکٹر نینا پٹیل کی زیر نگرانی رہتی ہیں۔

اس گھر کے ہر کمرے میں دس حاملہ خواتین رہتی ہیں۔ ان خواتین کو کھانا اور وٹامنز کے ساتھ ساتھ آرام کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن وسنتی آرام نہیں کرتیں۔

'میں راتوں کو بس ادھر ادھر گھومتی رہتی ہوں کیونکہ مجھے نیند نہیں آتی۔ جیسے جیسے میرا پیٹھ باہر آ رہا ہے اور کوکھ میں بچہ بڑا ہو رہا ہے، میں بور ہوتی جا رہی ہوں'۔

'میں جلد از جلد گھر جانا چاہتی ہوں، اپنے خاوند اور بچوں کے پاس'۔

اس گھر کے اصولوں کے مطابق سروگیٹ ماؤں کو حمل کے دوران سیکس کی ممانعت ہے۔

ان خواتین کو یہ بھی واضح کر دیا جاتا ہے کہ کسی پیچیدگی کی صورت میں ڈاکٹر، ہسپتال یا پھر بچے کے والدین ہرگز ذمہ دارنہیں ہوں گے۔

اگر سروگیٹ ماں کی کوکھ میں جڑواں بچے ہیں تو اسے دس ہزار ڈالرز ملتے ہیں لیکن اگر ابتدائی تین مہینوں میں حمل گر جائے تو ایسے میں خاتون کو چھ سو ڈالرز ادا کیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ، بچے کی کامیاب پیدائش پر جوڑے (والدین) سے تقریباً اٹھائیس ہزار ڈالرز وصول کیے جاتے ہیں۔

آئی وی ایف کلینک اور یہ گھر چلانے والی ڈاکٹر نینا پٹیل تسلیم کرتی ہیں کہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کا کام اشتعال انگیز ہے۔

'میں نے بہت تنقید کا سامنا کیا ہے اور مستقبل میں کرتی رہوں گی کیونکہ کئی لوگوں کی نظر میں یہ ایک متنازعہ عمل ہے'۔

پٹیل کے مطابق بہت سے لوگ الزام لگاتے ہیں کہ یہ ایک کاروبار ہے، یہاں بچے فروخت ہوتے ہیں، یہ گھر بچے پیدا کرنے کی فیکٹری ہے، اور مجھے اس قسم کے تمام الزامات سے تکلیف پہنچتی ہے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سروگیٹ ماؤں کا استحصال کیا جاتا ہے لیکن پٹیل کا ماننا ہے دنیا کی بڑی تجارتی کمپنیاں، سیاست اور گلیمر اس سے کہیں زیادہ سخت کاروبار ہیں۔

'میں سمجھتی ہوں کہ اس معاشرے میں ہر شخص اپنے مقاصد کے لیے دوسروں کو استمعال کر رہا ہے'۔

پٹیل کا خیال ہے کہ ان کے زیر نگرانی سروگیٹ ماؤں کو منصفانہ ڈیل مل رہی ہے۔

'میں مانتی ہوں کہ یہ مائیں جمسانی مشقت کرتی ہیں، لیکن انہیں اس کام کا معاوضہ ملتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا'۔

اس گھر میں رہنے کے دوران، سروگیٹ ماؤں کو سینا پرونا اور دوسرے کام بھی سکھائے جاتے ہیں تاکہ جب وہ یہاں سے جائیں تو اپنا گزر بسر اچھے انداز میں کر سکیں۔

ان سروگیٹ ماؤں کو ملنے والا معاوضہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

وسنتی کو ادائیگی ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہے جو ان کے شوہر اشوک کی چالیس ڈالرز ماہانہ تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔

کچھ مائیں تو ایک بار بچہ پیدا کرنے کے بعد دوبارہ یہاں آتی ہیں، لیکن پٹیل تین بار سے زیادہ ان ماؤں کی خدمات حاصل نہیں کرتیں۔

اکٹر پٹیل کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا سروگیسی کا گڑھ بننے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، جن میں اچھی طبی سہولیات کا میسر ہونا، سروگیسی کی کم لاگت اور بہتر قانونی صورتحال شامل ہے۔

'سروگیٹ ماؤں کا پیدا ہونے والے بچوں پر نہ تو کوئی حق ہوتا ہے اور نہ ہی ذمہ داریاں، لہٰذا انڈیا میں یہ کام بہت آسان ہے۔ اس کے برخلاف مغربی دنیا میں بچہ پیدا کرنے والی خاتون کو ہی بچے کی اصل ماں سمجھا جاتا ہے اور پیدائشی سرٹیفیکیٹ بھی اسی سروگیٹ ماں کے نام ہوتا ہے'۔

دنیا بھر کے انتہائی غریبوں میں سے ایک تہائی ہندوستان میں رہتے ہیں اور نقادوں کا ماننا ہے کہ غربت کی وجہ سے ہی خواتین سروگیٹ بننے کا فیصلہ کرتی ہیں۔

پٹیل نے بتایا کہ ہندوستان میں ضرورت مند خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

'یہاں خوراک، مکان، کپڑے، دوائیاں اور طبی سہولیات ہر ایک کے لیے مفت نہیں۔ لوگوں کو ان کے حصول کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے'۔

پٹیل نے بتایا کہ وہ سروگیٹ ماؤں کو حاصل ہونے والی آمدنی کو مناسب انداز میں خرچ کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔

وسنتی اور ان کے شوہر اشوک ایک نیا گھر بنا رہے ہیں۔

اشوک نے بتایا کہ ان کا پرانا گھر کرائے کا تھا اور نیا گھر اس سے کہیں بہتر ہے۔

'میرے والدین یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ ان کے بیٹے اور بہو نے مل کر ایک گھر بنا لیا ہے، اس طرح معاشرے میں ہمارا رتبہ بھی بلند ہو گا، جو بہت اچھی بات ہے'۔

لیکن وسنتی اور اشوک نے اس نئے گھر کی کچھ قیمت بھی چکائی ہے۔

انہوں نے یہ گھر پرانے محلے میں نہیں بنایا کیونکہ وہاں انہیں پڑوسیوں کے خراب رویے اور طعنوں کا ڈر تھا۔

جیسے جیسے ڈیلیوری کا وقت قریب آ رہا ہے، وستنی کی اس حوالے سے فکرمندی بڑھتی جا رہی ہے۔

'میں نہیں جانتی کہ اس بچے کے والدین فوراً آ کر بچے کو لے جائیں گے یا پھر بچہ کو دس، پندرہ یا بیس دن تک میرے پاس ہی رہنا ہو گا۔ یا پھر میں شاید اسے دیکھ ہی نہ پاؤں'۔

وسنتی کو اب ڈیلیوری کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں پٹیل نے ان کا سیزیرئن سیکشن کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس عمل کے بعد وسنتی نے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ ہندوستان میں عموماً لڑکے کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے لیکن وسنتی پریشان ہیں کیونکہ بچے کے جاپانی والدین لڑکی کے خواہش مند تھے۔

نومولود بچے کو پیدائش کے فوراً بعد دوسرے ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں اس کے والدین اسے اپنے ہمراہ جاپان لے جائیں گے۔

وسنتی پیدا ہونے والے بچے کی بس ایک جھلک ہی دیکھ پانے پر دکھی ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔

'میں نے اسے سیزیرئن کے دوران دیکھا تھا، میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا، لیکن پھر وہ اسے لے گئے، مجھے پانچ سیکنڈ کے لیے ہی اسے دیکھنے دیا جاتا'۔

وسنتی نے اب اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ وہ نئے گھر میں اپنے خاندان کے ہمراہ زندگی بسر کر رہی ہے اور ان کے بچے انگریزی میڈیم سکول جاتے ہیں۔

'میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں اور ہم ان کے لیے اچھا مستقبل چاہتے ہیں، اسی لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا اور میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ میری بیٹی کو بھی سروگیٹ ماں بننا پڑے'۔

بشکریہ بی بی سی ورلڈ

تبصرے (0) بند ہیں