چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان۔ فائل فوٹو
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان۔ فائل فوٹو

عمرانیات 101:

ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ عمران خان پاگل ہو گیا ہے، حد یہ کہ انکی اپنی پارٹی کے لوگ بھی- طالبان سے بات چیت؟ یہ پاگل پن ہے، خبط ہے دیوانگی ہے-

وہ اپنی بات پر قائم ہیں، اصرار کر رہے ہیں- چند ہی لوگوں نے یہ سوال کرنے کی زحمت کی ہے کہ آخر کیوں؟ سچائی اور معقولیت سے آخر کس بات کی لڑائی ہے؟ آخر وہ طالبان خان کیوں بننا چاہتے ہیں؟ آخر کیوں وہ ایک صلح جو سے ہمدرد اور پھر شریک جرم بن جانا چاہتے ہیں؟

ان سب کا آغاز ہوا شروعات سے- جب عمران نے سیاست میں قدم رکھے، انہیں سیاست کے بارے میں کچھ علم نہ تھا- وہ اس میدان میں اترے تھے یہ دنیا نہیں تو اس کا ایک کونہ ہی سہی تبدیل کرنے کو، لیکن یہ کس طرح ممکن ہو، اس کا انہیں ذرّہ برابر بھی اندازہ نہ تھا-

اب یہ خان صاحب کی قسمت، کہ ان کے مخالفین کو اچھی طرح پتا تھا کہ ورلڈ کپ جیتنے والے، ہسپتال بنانے والے، قومی ہیرو اور نۓ نویلے سیاست دان کا مستقبل کس طرح تاریک کرنا ہے-

تو ہوا یوں کہ سیاسی اکھاڑے میں، عمران خان محض یہودیوں کے ہمدرد، ایک سیکولر پلے بواۓ (جس کے بنا شادی کے بچوں کی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں) بن کر رہ گۓ- جب بھی عمران خان سیاست کی بات کرتے ان کے مخالف ولدیت کے ٹیسٹ کا مطالبہ کرتے-

اور یہ سب کام کر گیا- خان کی سیاست عیاشی، طعنہ زنی اور افواہوں میں ڈوب گئی- انکا ماضی ان کے مستقبل کے آڑے آگیا، پرانے حقائق نۓ عزائم کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے تھے-

تو پھر عمران خان نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے، انہوں نے عیاش عمران خان کو مسلمان عمران خان میں تبدیل کرنا شروع کر دیا-

مذہب کو اپنا کر، اسے اپنے راستے کی مشعل بنا کر، ایک سیکولر بے دین انسان نے آھستہ آھستہ ایک محفوظ منزل کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا، یعنی ایک اچھا مسلمان-

اس میں سالوں لگ گۓ لیکن بلآخر یہ تبدیلی مکمل ہو گئی- اب خان کو ملاؤں کی اینٹ کا جواب پہاڑ سے دینا آگیا تھا-

ان کا نیا جنم بےداغ تھا، مذہب کے لئے انکا دفاع سخت، روحانی آسرا غیر متزلزل- اب خان صاحب مذہبی سیاست کی دخل اندازیوں سے آزاد اپنی سیاست کر سکتے تھے-

لیکن اس تمام قصّے میں، ان کی تعلیم نو نے انھیں معتقد بنا دیا، ان کے اپنے  ذاتی مذہب کا جسے ہم کبھی نہیں جان پائیں گے، لیکن ان کے مذہب اور سیاسی ملاپ  کے بارے میں ہم ضرور جانتے ہیں-

اگر مذہب ایک شخص کو جھکانے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے تو پھر ایک شخص کواپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے- شروعات میں مذہبی سیاست کے شکار، عمران خان، کو ایک بار اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑ دینے کے بعد، اس بات کا ادراک ہو گیا، کہ حمایت حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر ذریعہ اور کوئی نہیں-

لوگ ایک نیا لیڈر چاہتے تھے جو ملک کو صحیح سمت میں لے جاۓ، لیکن وہ عمران خان کے طرز زندگی سے بھی خائف تھے- نیا عمران خان ایک بالکل مناسب مرکب تھا، جو مذہب کا ڈھول اپنے گلے میں ڈالے پھرتا تھا-

یہ طالبان خان کی ارتقا کا پہلا حصّہ تھا-

اس کا دوسرا حصّہ تھیں خان صاحب کی پختون جڑیں- اب وہ پوری طرح اس میں ڈھل گۓ ہیں- انہیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ پختون مزاج کو سمجھتے ہیں، وہ لاسہ جس سے انہیں بہلایا جا سکتا ہے اور وہ چابک جس سے انہیں سیدھا رکھا جا سکتا ہے-

ایک زمانے کے مردانگی پرست نے نسل پرستی دریافت کر لی- ایک پختون کی حیثیت سے خان صاحب، پختون نفسیات سمجھنے لگے، اور ان کے خیال میں یہی وجہ تھی جس سے انہیں طالبان کو سمجھنے میں مدد ملی-

اب یہاں پر بات کافی دلچسپ ہو جاتی ہے، ایک عرصے سے ریاست یہ سمجھتی رہی ہے کہ پختون کو قابو میں رکھنے کے لئے دو طریقے ہیں جن کا باری باری استعمال کیا جاتا رہا ہے، ایک تو قوم پرستی دوسرا مذہب- لیکن ریاست یہ بھی جانتی ہے کہ دونوں کو ایک ساتھ استعمال کرنا خطرناک ہے-

قوم پرستی کی حوصلہ شکنی ضروری تھی کیونکہ پختون ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب تھے، اور ضرورت سے زیادہ پختون قوم پرستی سے ان کےذہنوں میں اپنی علیحدہ سرزمین جیسے خیالات پیدا ہونے کا خطرہ تھا-

اور دوسرا طریقہ، مذہب، اگر اسے بہت زیادہ تقویت دی گئی تو یہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہوگا، آپ افغانستان اور پاکستان میں طالبان کو تو دیکھ ہی رہے ہیں-

یہی وجہ ہے کہ بہت سے نا قابل علاج سازشی نظریہ ساز ایسے ہیں جو اب بھی خبر پختون خواہ میں پہلے ایم ایم اے گورنمنٹ، اس کے بعد اے این پی گورنمنٹ کو ریاست کا پرانا قوم پرستی/ مذہبی کھیل سمجھتے رہے ہیں، جو باری باری کھیلا جاتا ہے-

لیکن خان صاحب مختلف ہیں، وہ دونوں کو سمجھتے ہیں قوم پرستی بھی اور مذہب بھی، اور اسی لئے وہ  ٹی ٹی پی پر قابو پانے کے لئے دونوں کو ایک ہی وقت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں-

طالبان خان کی ارتقا میں ایک اور عنصر بھی شامل ہے، نا واقفیت، ایک ناواقفیت تو وہ ہے جس کا ان پر اکثر ہی الزام لگتا رہتا ہے، لیکن ایک اور خاص قسم کی ناواقفیت ہے جس کا سیاق و سباق بھی خاص ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ خان صاحب کے کونسے رابطے ہیں؟ اسٹیج کے پیچھے  خفیہ اور محفوظ چینلز کے ذریعہ ان کی رسائی کہاں تک ہے؟

یہ کیسے ممکن  ہے شریف برادران نے تو دکھا دیا-  لوگوں کو بہت عرصے سے اس بات کا شک ہے، پنجاب محفوظ ہے اور کسی بھی قسم کے فوری خطرے سے دور، کیونکہ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کو تسلیم کر لینا یا خرید لینا انہوں نے اپنی پالیسی بنا لی ہے-

انکی  پالیسی کیا ہے اس کے خد و خال کا فقط اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے، اس کی تفصیلات جاننا مشکل ہے، کیوں کہ شریف برادران، اسٹیج کے پیچھے  اپنی خفیہ چینل کارروائیوں کے بارے میں محتاط ہیں-

اور پھر پنجابی طالبان کے معاویہ نے بلی تھیلے سے باہر نکال ہی دی، انہوں نے مذاکرات کے حق میں بات کرنی شروع کردی نتیجتاً مرکزی ٹی ٹی پی نے انہیں عارضی معطل کر دیا-

خان صاحب کا اصرار ہے کہ مذاکرات ہی واحد ذریعہ ہیں، لیکن ٹی ٹی پی میں ان کا حمایتی کون ہے؟ ایسا کون سا شخص ہے جو انہیں بتا سکے کہ ٹی ٹی پی کے اندر کیا چل رہا ہے، کون بات چیت کرنا چاہتا ہے، کون نہیں، کس سے پہلے رابطہ کرنا چاہیے، کس سے خبردار رہنا چاہیے؟

خان صاحب کے پاس کوئی نہیں ہے، اور الیکشن مہم کے دوران یہ بات واضح ہونا شروع ہو گئی تھی- اگر بات چیت اور صرف بات چیت ہی کے خیال پر عمران خان نے یہ خوفناک داؤ کھیلا تھا، تو اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ تھی کہ خان صاحب، ٹی ٹی پی سے صرف اپنی تقریروں اور ٹی وی مناظروں کے ذریعہ ہی مخاطب تھے-

الیکشن کے بعد یہ بات مزید واضح ہوگئی، کہ عمران خان اینڈ کمپنی نے پی ٹی آئی اور ٹی ٹی پی کے درمیان رابطہ بنانے کے لئے بہت سوں سے مدد مانگی-

ٹی ٹی پی کے اندر خان صاحب کا کوئی بندہ نہیں ہے، یہ خیال اتنا ہی بھیانک ہے جتنا بات چیت اور صرف بات چیت کا آئیڈیا- کیونکہ خان صاحب، ناصرف یہ کہ دشمن کو نہیں سمجھتے ہیں بلکہ وہ یہ تک نہیں جانتے کہ آخر دشمن ہے کون-

وہ نہیں جانتے کیوں کہ انہیں اس کی پروا نہیں ہے- کیوں کہ انکے خیال میں انہیں معلوم ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے-

جس کی وجہ سے باقی تمام لوگوں کے لئے یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ طالبان خان کو کیسے لگام دی جاۓ؟


ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Abdul Rauf Oct 07, 2013 08:33am
It is very easy to find faults and criticize when one is not required to provide the solution. Imran has been saying this for 10 years whereas the Americans and our army were boasting that they would remove each and every talib from the face of earth. After ten years of a futile war where we have lost more than 40,000 people to terrorism, the Taliban are even stronger than before and the US has realized the importance of talks and so has Pakistan.If you have any other solution of the issue in mind you are welcome to share it with the public and the govt/s.
انور امجد Oct 08, 2013 12:51am
غیر ملکی فوجوں کے افغانستان سے نکلنے کے بات وہاں جو بھی حکومت آتی ہے اس کو ہر صورت میں پاکستان سے تعلقات بنانے ہونگے کیونکہ افغانستان کا دنیا سے تجارتی رابطہ پاکستان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس وقت افراتفری کا ماحول ہے لیکن جس طرح حالات کا رخ ہے لگتا ہے کہ آخرکار افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی۔ اس وقت پاکستان کو فاٹا میں فوجی کاروائی میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور عمران خان کو موقعہ دینا چاہیے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ نکلنے سے پہلے وہ پاکستان کو اس مسئلہ میں الجھا کر جائیں۔ ہماری میڈیا میں بھی کچھ لوگ ہیں جو انکی سوچ کا پرچار کر رہے ہیں۔ یہ مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
arafridi63 Oct 08, 2013 02:08pm
Fully agree with Anwar sb.