اسلام آباد: عیسائی خواتین جنگل میں عبادت کر رہی ہیں۔— اے پی

اسلام آباد: پاکستان میں حالیہ مذہبی تعصب پسندی کے شکار سینکڑوں عیسائیوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اسلام آباد کے نواحی جنگل میں پناہ لے لی ہے۔

ان عیسائیوں نے جنگل میں صفائی کرنے کے بعد درختوں اور ٹہنیوں کو کاٹ کر ایک گرجا گھر بھی بنا لیا ہے ۔

عیسائی خاندانوں کے جنگل کو نقل مکانی کی کہانی وفاقی دارالحکومت کی نواحی کچی بستی کی ایک کمسن عیسائی لڑکی پر اس کے ہمسائے کی جانب سے توہین مذہب کے الزامات کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کے تحت موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

مبینہ طور پر ذہنی مریضہ گیارہ سے سولہ سالہ لڑکی پر الزام ہے کہ اس نے قرآنی آیات پر مبنی کچھ اوراق  کو نذر آتش کیا ہے۔

علاقے میں یہ خبر عام ہونے پر سیکڑوں کی تعداد میں لوگ اس لڑکی کے گھر کے باہر جمع ہو گئے اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے لگے۔

جس کے بعد پولیس نے بیس اگست کو لڑکی کو حراست میں لینے کے بعد تحقیقات شروع کر دیں۔

لڑکی کی گرفتاری  کے ایک ہفتے گزرنے کے بعد بھی یہ تعین نہیں کیا جا سکا کہ اس کی اصل عمر کتنی ہے، آیا وہ ذہنی مریض ہے بھی یا نہیں اور آخر اس نے کس قسم کے اوراق نذر آتش کیے تھے ۔ اس بات کے ٹھوس شواہد اب تک سامنے نہیں آئے ہیں کہ جلائے گئے اوراق پر قرآنی آیات درج تھیں۔

واقعے کے بعد علاقے میں رہائش پزیر زیادہ تر عیسائی خاندان (بعض اندازوں کے مطابق چھ سو خاندان) خوف کی وجہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

نقل مکانی کرنے والے بعض خاندانوں نے دعوی کیا ہے کہ انہیں ان کے مالک مکان نے گھروں سے نکال باہر کیا ہے۔ تاہم اب کچھ خاندان واپس اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔

اتوار کے روز جنگل کا رخ کرنے والی ایک خاتون سمیرہ زاہد بھی ہیں۔ اپنے تین بچوں اور والدین کو کھانا دینے میں مصروف سمیرہ نے بتایا کہ وہ پہلے بھی یہاں لکڑیاں چننے کے غرض سے آیا کرتی تھیں اسی لیے انہیں یہاں پناہ حاصل کرنا مناسب لگا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کسی کا گھر نہیں ہےاور نہ ہی یہ جگہ کسی کی ملکیت ہے لہذا انہیں یہاں سلامتی کے ساتھ رہنے دیا جائے۔

پیر کے روز پادری عارف مسیح چرچ کے  لیے شاخوں کو جوڑنے والے جنگل مکینوں سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے:  ہم خدا کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں یہ زمین دی، حالانکہ یہاں کھانے اور پینے کو کچھ نہیں ہے لیکن اگر آپ نے صبر کیا اور ان مشکلات کو جھیلتے ہوئے خدا کے شکر گزار ہوئے تو آپ یقین رکھیں کہ خدا یہاں پر پانی کے جھرنے اور کھانے کے لیے تمام پھل دیں گے ۔

تقریباً انیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل مسلم اکثرتی پاکستان میں توہین مذہب اور رسالت ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔

ہجوم کی جانب سے مبینہ طور پر توہین مذہب کے مر تکب افراد کو ہلاک کرنے کے واقعات اکثر خبروں میں آتے رہتے ہیں۔

گزشتہ برس توہینِ مذہب کے قانون پر تنقید کرنے والے دو سیاسی رہنماؤں کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔

جولائی میں مبینہ طور پر قرآن کی توہین کے الزامات کا سامنا کرنے والے شخص کو ہزاروں کی تعداد پر مشتمل ہجوم نے تھانے سے باہر نکالا اور تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد لاش کو نذر آتش کر دیا۔

حالیہ حساس معاملے پر عوامی شخصیات بھی بات کرنے سے گریزاں نظر آتی ہیں۔

حکومت نے اس معاملے پر انتہائی کم بات کی ہے جب کہ جنگل میں مقیم عیسائی خاندانوں کی حفاظت کے لیے بھی کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔

پیر کے روز پاکستان علماء کونسل نے پاکستان بین المذاہب اتحاد لیگ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران حکومت سے  مطالبہ کیا کہ وہ عیسائی لڑکی پر لگائے جانے والے الزامات کی صحت اور واقعہ میں مذہبی شدت پسندوں کے کردار کی مکمل تحقیقات کرے۔

لیگ کے رہنما ساجد اسحاق نے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے مالی نقصانات کے ازالہ کا بھی مطالبہ کیا ۔

اس قانون کے حوالے سے بعض نقادوں کی رائے ہے کہ اسے اکثر و بیشتر ذاتی عناد اور دشمنیوں کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

توہین مذہب کے واقعات پر مغرب کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً ردعمل سامنے آتا رہتا ہے۔

حٓل ہی میں امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں عیسائی لڑکی کے واقعہ کو 'پریشان کن' قرار دیا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران، علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر الاشرفی نے دوسرے ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ پاکستان خود لڑکی اور اس کی برادری کو انصاف فراہم کر سکتا ہے۔

دوسری جانب، لڑکی کو حراست میں لیے جانے کے کچھ گھنٹوں بعد نقل مکانی کرنے والی نوراں بشیر پیر کے روز واپس اپنے گھر لوٹ آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ لڑکی نے مقدس کتاب کے اوراق نذر آتش کیے تھے یا نہیں لیکن وہ اپنی جان بچانے کی خاطر گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ہمراہ ان کا صرف ایک بیٹا واپس آیا ہے جب کہ خوف میں مبتلا دوسرے بچوں کو وہ اپنے رشتہ داروں کے ہاں چھوڑ آئی ہین۔

انہوں نے بتایا کہ مبینہ طور پر مسلمانوں نے انہیں گرجا گھرمیں عبادت سے روکا اور کہا کہ اگر عبادت کرنی ہے تو گانے مت گائیں۔

نوراں تو واپس آ چکی ہیں لیکن بہت سے لوگ واپس آنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

اسلام آباد: شہری انتظامیہ کے دفاتر کے باہر احتجاج جاری ہے۔ — اے پی

پیر کے روز تقریباً دو سو عیسائیوں نے، جن میں زیادہ تر مرد تھے، شہری انتظامیہ کے دفاتر کے باہر احتجاج کیا۔ ان کا مطابلہ تھا کہ انہیں نئی جگہ پر رہنے دیا جائے ۔

ایک عیسائی سلیم مسیح کا کہنا تھا کہ ہمارے کوئی لمبے چوڑے مطالبے نہیں، ہم نے جنگل میں ایک علاقے کی اپنے ہاتھوں سےصفائی کی ہے اور ایک چھوٹے گرجا گھر کی بنیاد بھی رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ گرجا گھر کچھ شاخیوں پر کھڑا کیا گیا ڈھانچہ ہی سہی لیکن یہ خدا کا مقدس گھر ہے اور اس کی عزت کی جانی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں