ڈینیئل گل اور قمر رضوان نے ایک سو ستر ہیڈر کا سابقہ ریکارڈ چار منٹ چھیالیس سکینڈز میں تیس سو پینتیس ہیڈر لگا کر توڑ ڈالا۔—آئی این پی فوٹو

کہتے ہیں ایک بار جب مشہور شاعر جون ایلیا کو ایک لاہوری دوست نے کہا کہ جون صاحب پھر ہے ناں، لاھور لاہور اے تو جون نے سوال کیا مگر بھائی کیا کوئٹہ کراچی ہے؟ کیا فیصل آباد پشاور ہے؟

مجھے نہیں معلوم کہ ان صاحب نے اس بات کا کیا جواب دیا تاہم اگر مرحوم جون آج زندہ ہوتے تو میں ضرور ان سے کہتا جی ہاں جون بھائی کوئٹہ کراچی ہے البتہ فیصل آباد کو پشاور بننے میں تھوڑی تاخیر ہوگئی ہے۔

لاہور واقعی لاہور ہے ورنہ اس ملکِ وحشت انگیز میں کس کو اتنی پرواہ کہ ایک دن میں گنیس بک آف ورلڈ ریکارڈ کے آٹھ ریکارڈ توڑ ڈالے۔

کل تک مجھے حیرت تھی کہ یہ ریکارڈ آٹھ کیوں ہیں اور نو کیوں نہیں لیکن آج یہ ارمان بھی پورا ہوا۔ ثابت ہوا کہ ہم سے زیادہ زندہ دل کوئی اور قوم نہیں جس میں ایک ہی دن میں نو ریکارڈز کا دھڑن تختہ کرنے کا دم ہو۔

گفتگو میں کوئٹہ، کراچی، پشاور اور فیصل آباد کا ذکر یوں آیا کہ ان مردہ دل شہروں نے بھی کچھ کمالات اس طرح کے دکھائے ہیں کہ  اگر گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ پرتشدد واقعات کو بھی ریکارڈز کی شکل میں محفوظ رکھتی تو یہ جس طرح اس مقابلے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں، شاید ہی کوئی اور شہر ان کا مقابلہ کر پائے۔

پچھلے کچھ عرصے سے ہم جس تندہی سے کوئٹہ کو کراچی بنانے میں مصروف ہیں شاید ہی دنیا میں خدا نے کسی ملک کو اتنے پرعزم ارادوں کی نعمت سے نوازا ہو۔ بلکہ اگر درمیان میں ہماری ہمت متزلزل نہ ہوئی تو ہم بلوچستان کے ہر شہر کو کراچی بنا ڈالیں گے۔

جہاں تک فیصل آباد کو پشاور میں بدلنے کا تعلق ہے تو اس میں خاصی تاخیر ہو رہی ہے۔ سوائے القاعدہ کے سیف ہاوسز کے اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تاہم پنجاب کے خادمِ اعلٰی کی انتھک کوششوں کی بدولت ان کے داخلی وزیر رانا ثنا اللہ عرصہِ دراز سے کچھ ایسی تنظیموں سے رابطے میں تاکہ اس مسئلے کو جلد حل کیا جا سکے۔

آخر میں زندہ دلانِ لاہور کو مبارک باد پیش کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ دو دنوں کے قلیل وقت میں نو ریکارڈز توڑ کر باالآخر دنیا بھر پر کی توجہ اپنی طرف حاصل کرنا اور ثابت کر دینا کہ پاکستان کا اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ گینیس بک  آف ورلڈ ریکارڈز میں کم ریکارڈز کا ہے۔

اب کم از کم دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں اس پر سے تو ہٹیں کہ پاکستان کی ریاست کو طالبان کی دہشت سے کوئی خطرہ ہے۔

زندہ دلانِ لاہور نے دنیا بھر کے میڈیا کو بتا دیا ہے کہ انہیں بلوچستان کی کہانیاں ڈھونڈنے کے بجائے منتظر رہنا چاہیے کہ ہم پاکستانی اگلی مرتبہ کب مہدی حسن کی غزلوں کے ریکارڈ کو سوئی کی بجائے مونچھوں کی نوک سے چلا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کریں گے۔


شیخ پیر کا کبھی کویی مرید بننے نہیں آیا ورنہ اسے معلوم ہوجاتا کہ حضرت مفرور ہیں اور  کرانچی والا کا لقب دھوکہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں