فائل تصویر --.

ہماری معیشت پر آئے دن جو تبصرے ہوتے رہتے ہیں ان میں وہی پرانی باتیں دہرائی جاتی ہیں جو احساس محرومی پیدا کرتی ہیں- لیکن ان کے حل پر ناکافی توجہ دی جاتی ہے گویا وہ ہماری حد سے پرے ہیں-

اس کی ایک اہم مثال توانائی یا بجلی کا بحران ہے- اس معاملے میں ہماری توجہ بڑے مسائل پر مرکوز رہتی ہے جیسے ایندھن کی قیمتوں کا تعین اور اسکی رسد، سرکیولر قرضے اور بجلی کی لائن میں ہونے والے نقصانات-

یقینا یہ اہم مسائل ہیں اوراس صورت حال سے نکلنے کے لئے ان کا حل نکالنا بھی ناگزیر ہے- لیکن آگے بڑھنے کا محض یہی ایک راستہ نہیں ہے- لیکن یہ مسائل جتنے پیچیدہ اور باہم طور پر مربوط نوعیت کے ہیں اور ان کا حل ڈھونڈھنے کے لئے جو تجاویز پیش کی جاتی ہیں اس مایوسی پرختم  ہوتی ہیں کہ ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہے-

اس گہری مایوسی کی وجہ سے جس چیزکو نقصان پہنچتا ہے وہ ہے انوکھی نوعیت کے حل- جو چھوٹے چھوٹے ہو سکتے ہیں لیکن ان پر بڑے پیمانے پر عمل درآمد ہو سکتا ہے اس معاملے پر جو جدید ترین حل پیش کیا گیا ہے اسے 'پوائنٹ آف کنزمپشن ' (صرف کرنے کی جگہ) کا نام دیا گیا ہے- یعنی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے بجلی اسی جگہ پیدا کی جائے جہاں یہ استعمال ہوتی ہے.

اس کو سمجھنے کے لئے کمپیوٹر کی مثال لیجئے جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی ترقی کی ہے- ابتدا میں جو کمپیوٹر بنائے گئے وہ مین فریم ہوا کرتے تھے یعنی بڑے بڑے ڈبے جو بھاری بجلی کی قوت کے حامل ہوتے تھے اور انہیں بہت سے تاروں کی مدد سے بہت سارے ٹرمنلس سے جوڑ دیا جاتا تھا اور پھر اس طاقت کو انفرادی طور پر استعمال کرنے والوں تک پہنچایا جاتا تھا.

وقت کے ساتھ ساتھ مین فریم کی جگہ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز نے لے لی جس کی ساری قوت ایک یونٹ کے ٹرمنل میں ہوتی تھی- اس کے بعد ڈیسک ٹاپ کی جگہ لیپ ٹاپ نے لے لی اور اب اس کی بھی جگہ ٹیبلیٹ نے لے لی ہے.

کچھ اسی طرح کی ترقی ساری دنیا میں بجلی کے شعبہ میں بھی ہو رہی ہے اگرچہ اس کی رفتار سست ہے.

پرانے ماڈل جو ہم سب استعمال کرتے ہیں ایک بہت بڑے بجلی گھر پر مشتمل ہوتے ہیں جنھیں تاروں کے ذریعہ بہت سارے بجلی گھروں سے جوڑ دیا جاتا ہے یہی بجلی ہم استعمال کرتے ہیں- لیکن نئے ماڈل کے تحت بہت سے چھوٹے چھوٹے بجلی پیدا کرنے والے مراکز (پواینٹ) قائم کئے جاتے ہیں- یہ پوائنٹ اسی جگہ پر ہوتے ہیں جہاں بجلی استعمال ہوتی ہے- یہ پوائنٹس بجلی کی سپلائی گرڈ سے حاصل کرتے ہیں اور اس سے وہ اپنی کمی کو پورا کرتے ہیں یا اگر وہ زیادہ مقدار میں بجلی پیدا کر رہے ہوں تو واپس گرڈ کو بھیج دیتے ہیں-

شہری علاقوں میں تو اس کا تصور کرنا فی الحال مشکل نظر اتا ہے- میں اس بات سے لاعلم ہوں کہ ابھی تک کتنے لوگ کامیابی کے ساتھ شمسی توانائی کے پینل استعمال کر رہے ہیں تاکہ انہیں گرڈ سے بجلی خریدنے کی ضرورت نہ پڑے- اس کے علاوہ ہمارے پاس "دوطرفہ" میٹر بھی نہیں ہیں جن کے ذریعہ ہم فاضل بجلی گرڈ کو واپس بھیج سکیں.

لیکن دوردراز علاقوں میں ایک زبردست تجربہ ڈرائینگ بورڈ سے نکل کر حقیقت بن چکا ہے اور مقبول بھی ہو رہا ہے- مثلا گلگت-بلتستان، سوات اور دیر میں مائیکرو ہائڈل پراجکٹس قائم کئے جا رہے ہیں اور ان پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد ہو رہا ہے اور ان کے نتائج بھی امید افزا ہیں.

بہت سے دیہاتوں میں حال حال تک بجلی حاصل کرنے کے امکانات موجود نہ تھے کیونکہ ان تک گرڈ پہنچانے کے مصارف اتنے زیادہ تھے کہ ہماری حکومت کے لئے جس کے ذرائع آمدنی محدود ہیں یہ ممکن نہ تھا- اب ان دیہاتوں کو گرمیوں کے پورے موسم میں مفت بجلی مل رہی ہے اور وہ بھی ایک چھوٹے سے ٹربائن کے ذریعہ جس کے لئے پانی پہاڑی چشموں سے حاصل کیا جاتا ہے اور ہاتھ سے کھودی ہوئی نہروں کے ذریعہ ٹربائن تک پہنچایا جاتا ہے.

ان مائیکرو ہائیڈل پروجکٹوں کے لئے جو ٹکنالوجی استعمال ہو رہی ہے وہ مقامی طور پر سوات کے قریب واقع ایک مقام بیشام میں بنائی گئی ہے- مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ ٹکنالوجی کسی یورپی ایجنسی نے امدادی پروگرام کے تحت پاکستان کو فراہم کی ہے. لیکن مجھے پورے حقائق کا علم نہیں کہ یہ یہاں کیسے پہنچی-

لیکن میں یقیں کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ٹکنالوجی تیزی کے ساتھ پہاڑی دیہاتوں میں دیر سے لیکر سوات اور گلگت- بلتستان تک پہنچ چکی ہے- میں نے رات کے وقت پہاڑی چٹانوں پر واقع چھوٹے چھوٹے گاؤں کو بجلی کے قمقموں سے جگمگاتے دیکھا جو یہی ٹکنالوجی استعمال کر رہے ہیں- گاؤں والوں نے یہی بجلی ملکر خریدی ہے اور مجھےعلم ہے کہ گلگت-بلتستان میں بھی یہی ہو رہا ہے-

اس طریق عمل کو ہم سارے ملک میں استعمال کر سکتے ہیں- مثال کے طور پر اگرچہ پنجاب میں پہاڑی چشمے نہیں ہیں لیکن نہروں میں بہنے والے پانی سے موسم گرما میں اسی قسم کے ٹربآئینوں کے ذریعہ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے البتہ اس کے لئے سست رفتاری سے بہنے والے پانی کی بڑی مقدار استعمال کرنا ہوگی.

موسم گرما میں چھوٹے چھوٹے ٹربآئینوں کو کنٹینرز میں نصب کرکے نہروں میں اتارا جاسکتا ہے اور اسے ایک تار کے ذریعہ قریب ترین گرڈ سٹیشن سے جوڑا جا سکتا ہے اور اس طرح پیدا ہونے والی بجلی کسی ایک گاؤں یا بستی کو فراہم کی جا سکتی ہے.

اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے ہزاروں پروجکٹوں کے ذریعہ پنجاب کے دیہاتوں کے وسیع علاقوں میں موسم گرما کے کٹھن زمانے میں بجلی فراہم کی جا سکتی ہے- کم سے کم اتنی بجلی تو فراہم کی جاسکتی ہے کہ چھوٹے پیمانے کی صنعتیں کام کرتی رہیں اور گزر بسر کے وسائل بند نہ ہوں.

یہ کوئی راکٹ بنانے کی سائنس نہیں ہے- اس پر شمال کے پہاڑی علاقوں میں تیزی اور کامیابی کے ساتھ عمل درآمد ہو رہا ہے اور پنجاب کے علاقوں میں اس ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے لئے صوبائی حکومت کی معمولی سی مدد کی ضرورت ہے .

ساری دنیا میں "پوائنٹ آف کنزمپشن" کا طریقہ بہت سے علاقوں میں استعمال ہو رہا ہے جس کے ذریعہ مقامی جغرافیائی وسائل کو استعمال کرکے چھوٹے پیمانے پر جدید نوعیت کے بجلی گھروں کو فروغ دیا جا رہا ہے.

شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے مصارف بہت زیادہ ہونگے- اسی طرح پرانے طرز کے مین فریم کے ماڈل کے ذریعہ بڑے بڑے بجلی گھروں کی تعمیر اور پھر انھیں قومی گرڈ سے جوڑنے کے مصارف بھی زیادہ ہونگے.

اسکے برعکس "پوائنٹس آف کنزمپشن" کی طرز پر بجلی پیدا کرنا زیادہ قابل عمل ہے، خاص طور پر ان بستیوں کے لئے جنھیں بجلی کی زیادہ ضرورت نہیں بلکہ صرف اتنی بجلی کافی ہے کہ اس سے چند بجلی  کے بلب اور پنکھے چل سکیں.

لیکن مذکورہ بالا تجاویز کو پیش کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ بجلی کے شعبے سے متعلق بڑے پیمانے کے مسائل پر غور و فکر کا سلسلہ بند کر دیا جائے- بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ اگر اس کام کے ساتھ ساتھ "پوائنٹس آف کنزمپشن" کے جدید طریقے کو بھی فروغ دیا جائے تو مناسب ہوگا.

اگر یہ انوکھا طریقہ فروغ پا جائے تو ایسی ٹکنالوجی تیار کی جاسکتی ہے کہ جو علاقے فاضل بجلی پیدا کریں وہ اپنی بجلی ان علاقوں کو دیں جہاں اس کی کمی ہے- بعد ازاں اس کی قیمت کا تعیین اور بجلی کی تقسیم کا طریقہ کار بھی طے کیا جا سکتا ہے-

اس میں شک نہیں کہ اس سوچ پرعمل کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں اور بڑے چیلنجزکا بھی سامنا ہے- لیکن بجلی کے بحران کو حل کرنے کا کوئی بھی طریقہ رکاوٹوں اور چیلنجز سے خالی نہیں- چنانچے، بیشام کی مثال جس کی بنیاد پر گھریلو صنعتیں کامیابی سے کام کر رہی ہیں، ایک ایسا ماڈل ہے جس پر گہرا غورو فکر کرنے اور دیگر علاقوں میں اسے روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے-


کراچی میں مقیم مضمون نگار صحافی ہیں اور معیشت و تجارت کے معاملات پر لکھتے ہیں۔

انگریزی سے ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں