اٹاری-واہگہ بارڈر -- فوٹو بشکریہ ثنا کاظمی --.

اس ہفتے معروف پاکستانی بزنس ہاؤسز کا ایک وفد ہندوستان کا دورہ کر رہا ہے- اس دورے کا اہتمام کنفڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (سی آئی آئی) نے کیا ہے- وفد وزراء کے علاوہ حکومت ہند کے سینئر افسران سے بھی ملیگا۔

ان کے مذاکرات کا محور ایک دلچسپ اور انوکھی تجویز ہے، یعنی ایک مشترکہ بزنس کونسل کی تشکیل جو دوطرفہ تجارت میں مصروف ہندوستانی اور پاکستانی تاجروں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کی تنظیم کے طور پر کام کریگی

حقیقی معنوں میں اس کا مطلب ہے بیوروکریسیز پر انحصار کرنے کے روایتی طریقے سے انحراف- یہ تجویز باہمی اعتماد کی تعمیر میں ایک اہم پیش قدمی ثابت ہوگی جسکا خاصے طویل عرصے سے دونوں ملکوں کے درمیان فقدان رہا ہے.

ایک ہفتہ پہلے ہی پاکستان کے صدر نے آزادانہ ویزا دینے کے ایک معاہدے کی توثیق کی ہے اس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی دوروں میں مزید پیش رفت ہوگی.

ہندوستان اور پاکستان نے حال ہی میں مزید معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جن کا تعلق ان تین بنیادی مسائل سے ہے جسکی وجہ سے علاقے میں تجارت کو طویل عرصے سے نقصان پہنچ رہا تھا جو یہ ہیں:

1. معیارات اور جانچ پڑتال-

2. کسٹم کلیرنس-

3. تنازعات کا حل-

چند ماہ قبل ہندوستان نے پاکستان میں ہندوستانیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے کی پابندیوں کو ختم کر دیا اور اسی طرح پاکستانی سرمایہ کاروں پر سے بھی یہ پابندیاں ہٹا دی گئیں- اپریل میں اٹاری اور واہگہ کے درمیان ایک مکمل بارڈر چیک پوسٹ قائم کیا گیا جو جدید ترین سہولتوں سے لیس ہے اور جہاں سے ٹرکوں کی ایک بڑی تعداد گزر سکتی ہے-

ہندوستان نے پاکستان سے درآمد کی جانے والی ممنوعہ اشیا کی فہرست میں تیس فی صد کی کمی کردی ہے- جواباً پاکستان نے بھی وہ فہرست واپس لے لی ہے جس کے مطابق ہندوستان سے درآمد کی جانے والی اشیاء کی تعداد پر سخت پابندیاں عائد تھیں.

اس کی جگہ ایک نئی فہرست تیار کی گئی ہے جو کہیں زیادہ لچکدار ہے اور حکومت کو اس بات کی توقع ہے کے دسمبر 2012 تک یہ پابندیاں بھی ہٹا لی جائینگی ہم امید کرتے ہیں کہ ان حوصلہ افزا پیش قدمیوں کے ساتھ ساتھ مزید اقدامات بھی کئے جائینگے جس کے نتیجے میں ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو استحکام حاصل ہوگا.

گزشتہ دہائی میں ہندوستان اور پاکستان، جن کا شمار جنوبی ایشیا کی دو بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے، فی کس آمدنی کو دگنا کرنے میں کامیاب ہوۓ ہیں دونوں ممالک کی معیشتیں ترقی کے راستے پر آگے بڑھ رہی ہیں.

دی کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری نے اپنی دو ہزار گیارہ کی رپورٹ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ دونوں ممالک نے اہم معاشی اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کی معیشتیں وسیع ہوئی ہیں اور ترقی کی رفتار تیز ہوئی ہے- گزشتہ دس برسوں کے دوران دونوں ممالک کی معیشتوں کا حجم دگنا ہو گیا ہے.

تاہم، پردیپ مہتا کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق جو اس سال کےاوائل میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے لئے کیا گیا، بین علاقائی تجارت جنوبی ایشیا کے درمیان ہونے والی تجارت کا محض پانچ فی صد ہے- ہندوستان اور پاکستان کا یہ فیصلہ کہ وہ اپنی درآمدات کے حجم کو وسیع کرینگے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لئے ایک مثال ثابت ہو سکتا ہے.

ایک اندازے کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہر سال غیر سرکاری سطح پر تقریبا دو بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے اس میں وہ تجارت شامل نہیں ہے جو دبئی کے راستے سے ہوتی ہے جس میں پیداوار کے مقام کی اکثرو بیشتردوبارہ لیبلنگ کی جاتی ہے- دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بہتری کے نتیجے میں پورے جنوبی ایشیا کے خطے کے معاشی اور سیاسی ماحول کو بہتر بنانے میں براہ راست مدد مل سکتی ہے.

اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاشی تعلقات کو معمول پر لانے کے مذاکرات کا مقصد تجارت کو آزاد بنانا ہے دریں اثناء ان پہل کاریوں سے جو فائدہ ہوگا وہ تجارت کے دائرے سے کہیں آگے ہے.

جیسے جیسے دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا تعلقات میں نمایاں تبدیلی رونما ہوگی- دونوں ممالک کے مابین سرمایہ کاری کے نتیجے میں مشترکہ کاروباری ادارے تشکیل پا سکتے ہیں نتیجتا مزدوروں اور منیجروں کا تبادلہ ہوسکتا ہے نیز دو طرفہ تعلقات حقیقی معنوں میں مضبوطی سے "جڑ جائینگے" کیونکہ ایک ملک دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کریگا-

اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے- موجودہ داخلی ٹیکس، ٹیرف اور سبسیڈی کی پالیسیوں کی جگہ مزید غیر جانبدارانہ پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں کیونکہ ان پالیسیوں کی وجہ سے دونوں ہی ممالک میں پیداواری عمل اور تجارت میں پہل کاریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے-

سرحد کو پار کرنے کی راہ میں بنیادی تبدیلیوں کے نتیجے میں خشکی کے راستے تجارت کے حجم میں اضافہ ہوسکتا ہے، بارڈر پر تجارت کے نئے مقامات قائم کئے جاسکتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بینکوں کی شاخیں کھولی جا سکتی ہیں جن کی عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے-

2006 میں ہندوستان اور پاکستان نے مونا باؤ-کھوکھرا پار سرحد پر ریل اور سڑک کے ذریعہ آمدورفت، بحری راستہ اور فضائی راستوں کا ازسرنو جائزہ لینے کے امکانات پرغورکیا تھا- ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تجاویز پر جلد از جلد عمل کیا جائے-

ہندوستان طبی علاج اور"طبی سیاحت" کا عالمی مرکز بن چکا ہے جہاں ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں لیکن یہ ابھی تک پاکستانیوں کی پہنچ سے باہر ہے-

دونوں ممالک ایک طویل مشترکہ ثقافتی ورثہ کے حامل ہیں جس سے دونوں ممالک کے سامنے وسیع راہیں کھلی ہیں کہ وہ فلم، انٹرٹینمنٹ اور فیشن کے میدان میں ترقی کے امکانات سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی آمدنیوں میں اضافہ کریں.

حال ہی میں ہندوستان اور پاکستان کے تجارتی، حکومتی اور غیر منافعتی تنظیموں کے سربراہوں نے دبئی میں ورلڈ اکنامک فورم کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کی تھی-

دی گلوبل ایجنڈا کونسلز فارانڈیا اینڈ پاکستان نے دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کی پرزور حمایت کی ہے اور اس بات پرآمادگی کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے متعلقہ نیٹ ورکس کے ذریعہ ان سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گا-

ہمارا ایک مقصد یہ بھی ہوگا کہ ہم طالب علموں اور زیر تربیت امیدواروں کے تبادلے کے ذریعہ تجارتی تعلقات کو مستحکم بنانے کے لئے ٹھوس نوعیت کے پروجیکٹ شروع کریں-

دی گلوبل ایجنڈا کونسلز نے اس بات پر بھی رضامندی ظاہرکی ہے کہ وہ وسیع تر تعاون کی راہ میں حائل ہونے والے اسٹرکچرل مسائل کو حل کرنے کے لئے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں سے مدد حاصل کریگا-

ہم برصغیر میں بے اعتمادی اور تقسیم کی تاریخ سے واقف ہیں، لیکن ہمیں اٹل یقین ہے کہ ہم اپنے شہریوں کے لئے پر امن، خوشحال اور بہتر مساویانہ مستقبل فراہم کرنے میں کامیاب ہونگے-

اس ہفتے دونوں ممالک کے تجارتی رہنماؤں کو اس بات کا اہم موقع ملا کہ وہ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے ایک چھوٹا سا قدم اٹھائیں جو ہندوستان-پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کی سمت ایک عظیم قدم ثابت ہوسکتا ہے-


مصنفین ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل ایجنڈا کونسل براۓ پاکستان اور ہندوستان کے چئیرپرسنز ہیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں