کیرتھر نیشنل پارک ، فائل تصویر بشکریہ وکی پیڈیا کامنز۔

پاکستان کے نیشنل پارکس کے ماحول میں بہتری یا اس طرح کے منصوبوں کی سمت سرمایہ کاروں اور سیاحوں کی توجہ مبذول کرانا کیا قابلِ عمل اور لائقِ خواہش ہے؟

ایک طرف تو ان پر نباتات و حیاتیات کے تحفظ  اور بقا کا ٹیگ لگا ہوا ہے تو دوسری جانب یہ ان سہولتوں سے عاری ہیں جو اس طرح کے ماحولیاتی مقامات کو پُرکشش بناتے ہیں۔

نیشنل پارک تک پہنچنے اور فطرت کے نظاروں سے ہم کلام ہونے کے لیے سیاحوں کے واسطے سڑکیں، ریستوران اور پارکنگ ایریا کے ساتھ ساتھ، ان علاقوں کو آگاہی و تعلیم کا مقام بنانے کے لیے تعمیراتی سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔

 تاہم نیشنل پارکس کو پُرکشش بنانے کے لیے، ان کی حدود میں ترقیاتی سہولتیں قدرتی ماحول پر اثر انداز ہوئے بغیر فراہم و تعمیر کی جاتی ہیں۔

نیشنل پارکس کے مقرر کردہ ضوابط میں رہتے ہوئے اس طرح کی سہولتوں کی فراہمی میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں۔

اس ضمن میں پاکستان نے اب تک کیا ہے؟ کتابی سطح تک تو اس حوالے سے کی جانے والی قانون سازی مناسب نظر آتی ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ قوانین پر عمل درآمد غیر موثر ہے، تشویش کی بات یہ ہے کہ قوانین میں ایسی خامیاں موجود ہیں جو ایک ایسے ملک میں (انتظامی عمل داروں کو) صوابدیدی اختیارات کی اجازت دیتے ہیں، جہاں پہلے ہی قدرتی ماحول تباہی کا شکار اور کم ترجیح کا حامل ہے۔

اس ضمن میں اسلام آباد کے مرگلہ ہِلز نیشنل پارک کا کیس سامنے ہے، جو بڑے پیمانے پر مختلف اقسام کی جنگلی حیات و نباتات کا مسکن اور مناظرِ فطرت سے مالا مال ہے۔

 لیکن اتوار کو ادارہ تحفظِ ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ لفظوں سے پُر اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس، سن اُنیسو اُناسی درحقیقت ماہرینِ ماحولیات کے کاموں کو مزید مشکل تر بنارہا ہے۔

اس قانون کے تحت نیشنل پارک کی حدود میں تعمیرات کی اجازت ہے۔ نیز، اب قانون میں ایک ایسی شق بھی شامل کی گئی ہے، جس کے تحت قواعد کو صوابدیدی اختیارات کے تحت بائی پاس کرنے کی اجازت ہوگی۔

اس کا مطلب ہے کہ نیشنل پارک کے مناظرِ فطرت اور قدرتی حیات و نباتات سے مالامال نہایت بیش قیمت زمین  تجارتی بنیادوں پر مال کمانے والے شکاریوں کے پنجوں کی زد میں ہے۔

اگرچہ یہ سرمایہ کاروں اور اُن لوگوں کے لیے، جو بھاری پیسہ خرچ کر کے پُرسکون لمحات حاصل کرسکتے ہیں، بہت اچھا قدم ہوگا تاہم ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ مستقبل میں نیشنل پارک کو اس طرح کی تعمیراتی و تجارتی سرگرمیوں سے جو نقصان پہنچے گا وہ ناقابلِ تلافی ہوگا۔

اسی طرح کی صورتِ حال ملک کے دیگر نیشنل پارکس اور قومی ورثہ کو بھی درپیش ہے، جہاں کبھی کبھی تباہی کے اس کھیل میں خود ریاست بھی ایک کھلاڑی ہوتی ہے۔

لہٰذا جب ہم 'محفوظ علاقوں کے تصور' کے مطابق ان کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے تو پھر 'ماحول کے تحفظ' کے نام پر علاقوں کو 'محفوظ' کیوں قرار دیتے ہیں؟

تبصرے (0) بند ہیں