شامی افواج کے فضائی حملوں میں تباہ ہونے والی عمارتیں۔ فوٹو رائٹرز

بیروت: ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں شامی حکومت پر فضائی حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں میں بیکریوں،ہسپتالوں اور شہری اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو تنظیم کے بقول 'جنگی جرم' ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی 'آسمانوں سے موت' کے نام سے شائع رپورٹ میں جان بوجھ کر اور انتہائی غیر ذمہ داری سے قانون کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والے جنگی جرائم کے ذمے دار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، حکومت بلاامتیاز اور جان بوجھ کر شہریوں پر انتہائی منظم اور بڑے پیمانے پر فضائی حملے کر رہی ہے جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

نیو یارک میں قائم اس تنظیم کی رپورٹ ان تین جنگ سے متاثرہ صوبوں میں باغیوں کے علاقوں میں ہونے والی تحقیقات پر مبنی ہے۔

تحقیقات میں فضائی حملوں کے دوران نشانہ بننے والی چار بیکریوں، دو ہسپتالوں اور دیگر شہری اہداف کو شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ صرف حلب کے ایک ہسپتال دارالشفا پر کم از کم چار مرتبہ حملہ کیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایمرجنسی محقیق اولے سول وانگ نے بتایا کہ ہر جگہ پر عوام کو ان کے ہی ملک کی فضائیہ نے انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ ان غیر قانونی فضائی حملوں میں جہاں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے وہیں ان حملوں نے اپنے پیچھے خوف، دہشت اور بے گھری کے نشان بھی چھوڑے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ جولائی 2012 کے بعد سے اب تک شام میں کیے گئے فضائی حملوں میں اب تک چار ہزار تین سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، ان حملوں میں ایسے بموں کا استعمال بھی کیا گیا جس سے ایک ہی حملے میں بیک وقت کئی گھر زمین بوس ہوئے۔

شمالی علاقے ازاز کے ایک رہائشی احمد نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ گزشتہ سال پندرہ اگست کو اس کے گھر پر کیے گئے فضائی حملے میں اس کے خاندان کے کم از کم بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

احماد نے بتایا کہ 'میں نے خود اپنے ہاتھوں سے باپ، ماں، بہن، بھائی کی بیوی سمیت خاندان کی بارہ میتوں کو دفنایا'۔

'میرے بھائی ولید کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور ہم اسے پہلی دفعہ میں پہچان بھی نہیں پائے تھے۔ میں نے اپنے بھائی کے بچوں کو بھی دفنایا جن میں سے سب چھوٹا صرف چالیس دن کا تھا'۔

 واچ ڈاگ نے بتایا کہ ازاز میں کیے گئے ان حملوں میں ایسے دھماکا خیز آلات کا استعمال کیا گیا جو 155 میٹرکے اندر اندرجان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

 تنظیم نے الزام لگایا ہے کہ شامی افواج کی جانب سے استعمال کیے جانے والے دیگر ہتھیاروں میں کلسٹر بم، بیلسٹک میزائل اور آگ لگانے والے ہتھیار بھی شامل ہیں۔

سول سوانگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے حملے مستقل جاری ہیں۔ اتوار کو حلب میں ہونے والے فضائی حملے میں سترہ شہری ہلاک جبکہ ایک ہفتہ قبل کلسٹر بم کے حملے سے بھی گیارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

 تنظیم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں جاری خونریزی رکوانے کیلیے اپنا کردار ادا کرے۔

 ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام حکومتوں اور کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام کو ہتھیار بیچنے یا فراہم کرنے کا سلسلہ بند کر دیں کیونکہ شامی حکومت کیخلاف انسانی سوز جرائم کے ارتکاب کے واضح ثبوت موجود ہیں۔

سول وانگ نے چین اور روس کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کے خلاف کارروائی کے فیصلے کو ویٹو کیا تھا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر کوئی ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔

 ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود مختلف حکومتوں شام پر پرتشدد کارروائیاں بند کرنے کے حوالے سے اپنا دباؤ برقرار رکھیں۔

 گزشتہ ماہ شام کے صدر بشارالاسد نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی جانب سے شام میں تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے کونسل کو جانب دار قرار دیا تھا۔

 اقوام متحدہ کے اعداوشمار کے مطابق، شام میں مارچ 2011 میں پرامن احتجاج سے شروع ہونے والے تنازع میںاب تک ستر ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں