کراچی دھماکے میں ہلاک ہونے والے شخص کے عزیز واقارب شدت غم سے نڈھال ہیں -- فوٹو اے پی
کراچی دھماکے میں ہلاک ہونے والے شخص کے عزیز واقارب شدت غم سے نڈھال ہیں -- فوٹو اے پی

جیسا کہ عام طور پر پیش گوئی کی جارہی تھی ' دہشت گردی' کے اژدھے نے انتخابات کے دوران ایک بار پھراپنا بدصورت سر اٹھا لیا-

نشانہ بننے والی سیکولر سیاسی قوتیں سازشوں کی دہائی دیتی رہیں- جبکہ وہ، جن کے دائیں بازو کی مذہبی قوتوں کے ساتھ --- نظریاتی یا کسی اور نوعیت کے --- رابطے ہیں، خاموشی اختیار کیے رہے. نہ تو ان حملوں کی کھلّم کھلّا مذمّت کی اور نہ ہی ان کا دفاع کیا-

برانگیختہ لبرل مبصرین نے فوراً پارلیمانی دائیں بازو کی منافقت کو بے نقاب کیا اور بالکل صحیح کیا- انھیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ رجعت پسند طاقتیں میڈیا، تعلیمی اداروں اور معاشرے کے دیگر بہت سے شعبوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں- نتیجہ یہ کہ دہشت گردی کے تعلق سے جس"اتفاق رائے" کا پچھلے کئی برسوں سے بڑا چرچا تھا آج کہیں نظر نہیں آتا-

مجھے اس قسم کے اتفاق رائے کے امکانات مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتے- جسکی ایک وجہ چند سرکردہ سیاسی شخصیات کا عسکریت پسند دائیں بازو سے مخاصمت لینے سے گریز ہے، فوجی اسٹیبلشمنٹ اس کی دوسری وجہ ہے- لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں ہے، دراصل ہمیں دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے ایک بالکل مختلف قسم کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے، جبکہ لبرل لابی کا اندازفکر کچھ اور ہے-

11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد تقریباً تمام ہی حکومتیں، اور ان کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ میڈیا "دہشت گردی" کو ایک خاص مفہوم دینے کی کوشش کر ر ہے ہیں- جس میں زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ دہشت گرد جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کے عالمی نظریات کیلئے خطرہ ہیں-

ریاست خود کو "عوام" اور "امن" کا حتمی محافظ سمجھتی ہے اور اسی لئے اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی تمام تر قوت کو ---- جبری، نظریاتی یا کسی اور نوعیت کی ---- "دہشت گردوں" کا ہر وقت خاتمہ کرنے کیلئے استعمال کرے-

اس تناظر میں تمام ریاستوں نے ---- ہماری ریاست سمیت ---- گزشتہ چند برسوں میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے خود کو نئے نئے اور غیر معمولی قانونی اختیارات سے لیس کر لیا ہے.

اس عوامی بحث کو جو انسانی تہذیب کودہشت گردی سے لاحق حقیقی خطرات، اور ریاستوں کی ان سے نمٹنے کی اہلیت میں اضافہ کے بارے میں ہے نہ صرف مقبول میڈیا نے فروغ دیا ہے بلکہ "دہشت گردی کی اسٹڈیز" کے شعبہ کو بھی پچھلے چند برسوں میں مستند عالمانہ مضمون کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے-

درجنوں کی تعداد میں اکیڈمک جریدے وجود میں آئے ہیں جو ماہرین کو یہ فریضہ سونپتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر تجزیاتی، مشاورتی اور دہشت گردی کا قلعہ قمع کرنے کے بارے میں مضامین لکھیں-

دریں اثناء دہشت گردی کے اس سب سے بڑے نیٹ ورک کو ناقابل یقین وسعت حاصل ہوئی ہے ---جسے دہشت گردی کی صنعت نے کلی طور پر نظر انداز کر دیا ہے---، یعنی جدید ریاست کا جبرواستبداد اور نگرانی کا نظام-

دائیں بازو نے سامراج کی ڈرون ٹیکنولوجی کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے کی اجارہ داری تو کامیابی سے حاصل کرلی ہے نیز ریاستی آزادی و خودمختاری پر اس کے اثرات کا بھی علانیہ طور پر بیان کرتے ہیں- لیکن پاکستانی ریاست سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اس نے بے شمار قسم کے اسٹیٹ آف دی آرٹ ہتھیار اور ٹیکنولوجیز حاصل کرلی ہیں- جس کے نتیجے میں گزشتہ چند برسوں میں دہشت پھیلانے کی اس کی استعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے-

بدقسمتی سے لبرل عناصر ان ہتھیاروں اور ٹیکنولوجیزکی اس بنا پر قصیدہ خوانی کرتے ہیں کہ "دہشت گردی کے خلاف" جنگ میں ان کا حاصل کرنا ناگزیر ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست ان ہتھیاروں اورٹیکنولوجیز کو دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کے ساتھ ساتھ تشدد، یا جب ضرورت ہو اور جہاں ضرورت ہو، کسی سے بھی نمٹنے کیلئے استعمال کرتی ہے-

اس کا خمیازہ سب سے زیادہ بلوچ باغیوں کو بھگتنا پڑا- لیکن اس کے ساتھ ساتھ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے بے گناہ عوام کو بھی بارہا ریاست کی اس استبدادی قوت کا نشانہ بننا پڑا- اور یہ سب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیا گیا-

دریں اثناء، "دہشت گردی" ختم ہوتی نظر نہیں آتی ہے- بلکہ بیشتر لبرل مبصرین کا کہنا ہے کہ صورت حال روز بروز بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے- وقتاً فوقتاً سیاسی پارٹیوں میں عزم کی کمی کے بارے میں آواز بلند کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ "دہشت گردی" کے خاتمے کےطریقے پر کوئی اتفاق رائے موجود نہیں- لیکن اس کے مقابلے میں بہت کم یہ کہا جاتا ہے کہ خود ریاست (سامراج کا تو ذکر ہی کیا) کس قدربڑی خطرناک دہشت گرد بنی ہوئی ہے، جسے کوئی پوچھنے والا ہے نہیں-

صرف ایک مثال لیجئے- ایسے معروضی تجزیے بالکل نظر نہیں آتے جس میں ریاست کی بڑھتی ہوئی زبردست طاقت کے باوجود اس کی خودکش بمباروں سے نمٹنے اور جدید نام نہاد دھماکا خیز آلات ---- جس نے جنگی حکمت عملی بالکل تبدیل کردی ہے ---- کا قبل از وقت پتہ چلانے میں ناکامی کا جائزہ لیا گیا ہو-

حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی اور اسکا نشانہ بننے والوں کے بارے میں اگر انتہائی غم و غصہ کا اظہار اپنی پسند یا ناپسند کے مطابق کیا جائے تو پھر اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے- ایسی صورت میں لبرل لابی دائیں بازو کے سامنے پسپا ہو جاتی ہے جو مقبول عام لفاظی کا سہارا لیتی ہے، کیونکہ یہ عموماً یہی کرتے ہیں-

جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے مکمّل تنقید و تجزیہ ---- ایک سیاسی تحریک ---- جو دہشت گردی کی صنعت کے خلاف ہو، جس میں جدید ریاست کے علاوہ ملٹری-صنعتی کمپلیکس کے کردار پر خصوصی زور دیا جائے --- ملک کے اندر بھی اور بیرون ملک بھی --- جنھیں اس علاقے میں اور دنیا کے دیگر علاقوں میں جنگ کے جاری رہنے سے کثیر فائدہ پہنچ رہا ہو-

تجربہ یہ بتا تا ہے کہ بہت سے لبرل نظریات کے حامل لوگ جو چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کی مخالفت کریں وہ شائد اس توضیح کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوں جو میں نے پیش کی ہے- یقیناً دہشت گردی کو ان معنوں میں قبول کرلینے کا مطلب ان ساری حکومتوں اور لابیز کو برگشتہ کرنا ہے جو دہشت گردی کی صنعت میں پیش پیش ہیں اور جس نے ایک سے زیادہ پاکستانی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو عالمی سطح کے ماہرین کا درجہ دیدیا ہے، جنہوں نے"دہشت گردی" کا مخصوص نظریہ اپنا لیا ہے-

"ہمارے ساتھ یا پھرہمارے خلاف" کی منطق کے مقابلے میں سماجی حقیقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، یہ وہ منطق ہے جو سرد جنگ سے لیکر "دہشت گردی کے دور" تک جاری رہی- اس حقیقت کو جان بوجھ کر آسان بنانے کی کوششوں سے لبرل عناصر نہ تو خود کو اور نہ ہی اپنے کاز کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں-

مجھے دار ہے کے اگر ایسا ہے چلتا رہا تو یہ لوگ محض رجعت پسندوں کی منطق کا مذاق اڑانے کی حد تک محدود ہوکر رہ جائنگے، جبکہ عوام جو دہشت گردی کی مختلف اقسام کا شکار ہے سامراج، ریاست اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے گٹھ جوڑ کا نشانہ بنتے رہینگے-


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں