سکندر لودھی کی آمد سے قبل، دربار میں موجود ان کے امراء دالان کی طرف سے آنے والی خوشبو سے مسحور ہو رہے تھے، جہاں رانا جودھ پور کا نائب تازہ انار کا تحفہ لئے سلطان کی آمد کا انتظار کر رہا تھا-

رانا نے یہ افواہ سنی تھی کہ سلطان کو اپنی مہمات کے لئے مزید فنڈز کی ضرورت ہے چناچہ وہ خراج پر نظر ثانی کے لئے غور کر رہا ہے-

اس پر رانا نے سلطان کے مزاج کا اندازہ لگانے کے لئے لودھی کے دربار میں نذرانہ بھجوایا-

پھل چکھنے کے بعد سلطان کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے یہ انار، عراق اور فارس کے اناروں سے زیادہ ذائقہ دار پایا- یہ سن کر رانا کے قاصد نے ایک جادوگر اور اس کے جادوئی باغ کی داستان سنانے کی اجازت طلب کی- اجازت ملنے پر اس نے یہ کہانی بیان کی:

"کہتے ہیں کئی سال پہلے راجہ جودھ پور کے دربار میں ایک شعبدہ باز حاضر ہوا- اس دبلے پتلے تباہ حال شعبدہ باز کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایک رات اور ایک دن کے درمیان، آم اور انار کے ایسے باغات اگا سکتا ہے جن کے پھل کھانے کو تیار ہوں گے- راجہ اسے دیکھ کر مسکرایا اور اجازت دے دی-

وہ شخص اپنے کام میں جٹ گیا اور ننھے ننھے پودے لگانے شروع کر دیے- اور ایک دن اور ایک رات کے دوران وہ پودے تناور درختوں میں تبدیل گۓجن میں پرندوں نے اپنے گھونسلے بھی بنا لئے-

درختوں پر پھول کھلے اور دیکھتے ہی دیکھتے پھلوں سے لد گۓ، وقت مقررہ پر باغ تیار ہو گیا- راجہ اپنے خدام کے ساتھ شعبدہ باز کے باغ میں وارد ہوا-

"پھل چکھنے کے بعد راجہ نے اس کی عمدگی کا اعلان کیا- شعبدہ باز راجہ کی طرف سے کسی انعام کی امید پر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا- راجہ نے ایک نظر، مسرت اور امید سے کانپتے اس وجود پر ڈالی اور کہا، "اس کا سر قلم کر دو!"

اس سے پہلے کہ وہ شخص خوف و دہشت کا اظہار کر پاتا، جلاد کی تلوار نے اسے خاموش کر دیا-

"اب راجہ نے باغ کے چاروں طرف دیکھا کہ آیا باغ شعبدہ باز کی موت کے بعد غائب ہوتا ہے یا نہیں، لیکن باغ وہیں موجود رہا یہ یقیناً ایک بہت طاقتور جادو تھا جو اپنے بنانے والے کی موت کے بعد بھی باقی رہا-"

اس کے بعد رانا کا کارندہ سلطان سے مخاطب ہوا، "سلطان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ باغ آج بھی موجود ہے اور جو پھل ابھی سلطان نے نوش کیا وہ اسی باغ سے آیا ہے-"

رانا کا قاصد خاموش ہو گیا، لیکن سلطان ایک آمر تھا اور ساتھ ہی ایک شاعر بھی، اس میں اول الذکر کی بصیرت بھی تھی اور آخر الذکر کی شائستگی بھی، مسکرانے لگا اور بولا مجھے یقین ہے کہ یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوجاتی-

رانا کے قاصد نے سر جھکا کر تسلیم کیا کہ سلطان عالی مقام کا اندازہ بلکل درست ہے- لیکن کہانی جاری رکھنے سے پہلے اس نے اپنی جان کی امان چاہی کیوں کہ جن نامبارک واقعات کا وہ ذکر کرنے جا رہا ہے ممکن ہے اس سے جلیل القدر دربار کی توہین ہو-

امان پانے پر، قاصد یوں گویا ہوا؛

"چند سال گزرنے کے بعد ایک اور شعبدہ باز راجہ کے دربار میں حاضر ہوا- اس نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک رات اور ایک دن کے عرصے میں خربوزے کا ایسا کھیت اگا سکتا ہے جس کے پھل کھانے کے لئے تیار ہونگے- راجہ نے اس لاغر نوجوان شعبدہ باز کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر غریبی کے آثار نمایاں تھے اور اجازت دے دی-

"شعبدہ باز نے اپنا کام شروع کر دیا اور بلکل پہلے شخص کی طرح اس نے بھی ایک رات اور ایک دن کے عرصے میں پکے خربوزوں کا کھیت تیار کر لیا-

پھر شاہی پہرہ داروں کی نظروں کے سامنے اس نے چند خربوزے توڑے اور راجہ، راج کمار اور امراء کی خدمات میں پیش کیے، اور درخواست کی کہ اس کے اشارے پر سب ایک ساتھ خربوزے کاٹیں- خربوزوں کی خوشبو مسحور کن تھی، چناچہ جب شعبدہ باز نے اشارہ کیا سب بے تابی کے ساتھ خنجر سے انہیں کاٹنے لگے- صرف راجکمار نے خطرہ محسوس کرتے ہوۓ ایسا نہ کیا اور اس طرح اس کی جان بچ گئی- کیوں کہ جیسے ہی راجہ اور اس کے حواریوں نے خربوزے کاٹے ان کے اپنے سر تن سے جدا ہو کر قدموں میں گر گۓ-

نوجوان جادوگر کو گرفتار کر لیا گیا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ سب اس نے راجہ سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے کیا، کیوں کہ وہ اس جادوگر کا بیٹا تھا جسے راجہ کے ایک حکم پر قتل کر دیا گیا تھا-

"اسے موت کی سزا سنائی گئی، تب لڑکے نے کہا کہ وہ مسلمان ہے چناچہ مرنے سے پہلے اسے وضو کرنے کی اجازت دی جاۓ-"

اس کی آخر خواہش مان لی گئی اور ایک چھوٹے سے مٹی کے برتن میں وضو کا پانی اس کے سامنے رکھ دیا گیا- جیسے ہی برتن اس کے سامنے رکھا گیا نوجوان نےاس میں ڈبکی لگائی اور مٹی کے چھوٹے سے برتن میں غائب ہو گیا- ہر کوئی آگے بڑھ کر برتن کا معائینہ کرنے لگا لیکن جادوگر کا کوئی نشان نہ ملا-

کہتے ہیں کہ یہ کہانی سن کر سلطان لودھی اتنا خوش ہوا کہ اس نے رانا جودھ پور کو مستقل طور پر خراج پیش کرنے سے آزاد کر دیا، اور اتنا زیادہ خوفزدہ کہ جب تک زندہ رہا پھل کو ہاتھ تک نہ لگایا-


انگلش میں پڑھیں

مشرف علی فاروقی ایک لکھاری، نوولسٹ اور ترجمہ نگار ہیں-

ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں