ایک جامع تعلیم

ہماری کلاسیکل تحریریں ، وارث شاہ کی 'ہیر رانجھا'، شاہ عبدللطیف بھٹائی کا 'شاہ جو رسالو' ہمارے لسانی ورثے کا خزانہ ہیں -- فائل فوٹو
ہماری کلاسیکل تحریریں ، وارث شاہ کی 'ہیر رانجھا'، شاہ عبدللطیف بھٹائی کا 'شاہ جو رسالو' ہمارے لسانی ورثے کا خزانہ ہیں -- فائل فوٹو

"ہم ایک جامع لسانی شناخت کے وارث ہیں- ان میں سے کوئی بھی زبان دوسری زبانوں سے الگ نہیں ہے- ہم اپنے اندیشوں کی بنا پر زبانوں کے ساتھ پسندیدگی یا بےمروتی کا کھیل کھیلتے ہیں"-

کئی سال پہلے دوستوں کی ایک محفل میں میری ملاقات ایک جانے مانے اردو ادیب سے ہوئی- گفتگو کے دوران انہوں بتایا کہ وہ لکھتے اردو میں ضرور ہیں مگر انکی مادری زبان گجراتی ہے-

یہ ایک خوشگوار سرپرائز تھا، ابھی ہم اس انکشاف پر اظہار خیال کر ہی رہے تھے کہ وہ قدرے درشت لہجے میں بولے کہ انہیں گجراتی زبان سخت ناپسند ہے، وہ انہیں سننے میں بہت بری لگتی ہے- ایک لکھاری کے لئے کسی بھی زبان کی اس طرح تذلیل خاص کر اپنی مادری زبان کی، ایک غیر اخلاقی بات تھی- ہم سب ان کی اس بہیمانہ لمبی چوڑی ہانک کے دوران خاموشی سے بیٹھے رہے-

تقریباً ایک دہائی بعد ایک موقع پر مجھے یہ واقعہ دوبارہ یاد آ گیا، جب میں نے اردو زبان کی تاریخ پر ریسرچ کر نے کے دوران، گجرات کے شاعر، شیخ خوب محمّد چشتی (d. 1614 CE) کے بارے میں پڑھا جنہوں نے فارسی اور عربی صوفیانہ ٹیکسٹ سے اصطلاحات اور خیالات لے کر انہیں گجراتی زبان میں مدغم کر دیا، اور اس طرح ایک نۓ ادبی انداز کی تخلیق ہوئی، جسے آگے جا کر 'گجری اردو' کا نام دیا گیا-

گجری اردو میں لکھی گئی چشتی کی مثنوی، خوب ترنگ ( سنہ پندرہ سو اٹہتر) کو اردو زبان کی تاریخ میں اہم تصنیف سمجھا جاتا ہے- گجراتی زبان اور اس کی خوبصورت لے، اردو کی بنیادوں پر قائم کی گئی ہیں-

ٹھیک ایسی ہی صورتحال ہمارے خطے میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی ہے- ہم ایک جامع لسانی شناخت کے وارث ہیں- ان میں سے کوئی بھی زبان دوسری زبانوں سے الگ نہیں ہے- ہم اپنے اندیشوں کی بنا پر زبانوں کے ساتھ پسندیدگی یا بےمروتی کا کھیل کھیلتے ہیں-

حال ہی میں یہ سب یاد کرنے کا ایک اور موقع آیا- پچھلے چند ماہ سے، حال ہی میں شروع ہونے والے اپنے پبلشنگ ہاؤس کو متعارف کرانے کے لئے میں مختلف اسکولز جاتا رہا ہوں اور اس کے لئے اسٹوڈنٹس کو ان کتابوں سے کہانیاں بھی سنائی جاتی ہیں-

چونکہ یہ کتابیں، پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے قارئین کو ٹارگٹ کرتی ہیں، چناچہ واسطہ مختلف ایج گروپ سے پڑتا ہے، بہت چھوٹی عمر کے بچوں سے لے کر ٹین ایجرز تک- میں اب مکمل اردو میں کہانیاں سناتا ہوں، حتیٰ کہ ان کتابوں سے بھی جو اصل میں انگلش میں لکھی گئی ہیں، کیونکہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ بچے انگلش زبان کی بہ نسبت اردو زبان میں سنائی جانے والی کہانیوں سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں-

ایک کہانی گو کی حیثیت سے مجھے بھی اس میں لطف آتا ہے-

اپنی ان ملاقاتوں کے دوران مجھے خواندگی اور مطالعے کے فروغ کے حوالے سے ٹیچرز اور ماہرین تعلیم کے خدشات پر گفتگو کا موقع ملا-

اسکولوں میں میری ملاقات جتنے بھی اساتذہ اور ماہرین تعلیم سے ہوئی وہ سب بچوں میں اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں مہارت اور خواندگی دیکھنے کے لئے کوشاں ہیں-

وہ سب اپنے طلبہ کے لئے مخلص اور انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ایک ایسی سوسائٹی جہاں استاد کو کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں وہاں اپنے پیشے سے مخلص ایسے افراد سے ملنا میرے لئے خود ایک تعلیمی تجربہ تھا-

بدقسمتی سے والدین کا معاملہ اس حوالے سے تھوڑا مختلف ہے- بیشمار ایسے والدین ہیں جو ناصرف معاشی طور پر بلکہ بذات خود وقت نکال کر اپنے بچے کی پڑھنے لکھنے میں مدد کرتے ہیں، اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ اپنے اطراف میں بولی جانے والی زبانوں سے اجنبی نہ ہو جائیں-

لیکن ساتھ ہی ایسے والدین کی بڑی تعداد موجود ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ اسکول انگریزی زبان کی تعلیم کو دوسری زبانوں پر فوقیت دیں- انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ ان کا بچہ اردو میں برے مارکس لے رہا ہے لیکن اگر انگلش میں اس کے مارکس اچھے ہیں تو وہ اس میں خوش ہیں-

میں نے خود ایسے والدین کو دیکھا ہے جو اپنے بچے سے اردو زبان کی کہانی کی کتاب چھین کر انگریزی کہانیوں کی کتاب پکڑا دیتے ہیں- میں نے انہیں اپنے بچوں کو چیلنج کرتے دیکھا ہے کہ وہ اپنی منتخب کی ہوئی اردو کی کتاب سے کچھ پڑھ کر دکھائیں اور اگر وہ کسی ایک لفظ پر بھی لڑکھڑا جائیں تو اسے بہانہ بنا کر کتاب چھین لی جاتی ہے اور اس کی بجاۓ انہیں انگریزی کتاب پڑھنے پر مجبور کردیا جاتا ہے -

میں نے ایسے بچوں کے چہروں پر ویرانی اور ناقابل فہمی کے تاثرات دیکھے ہیں جو اس ننھی سے عمر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے-

والدین کی طرف سے کسی مخصوص زبان کے ساتھ ایسا نفرت انگیز سلوک ناصرف اس زبان اور بچے کے درمیان تعلق پر برا اثر ڈالتا ہے بلکہ دیگر زبانوں کے ساتھ بچے کے تعلق پر بھی اثر انداز ہوتا ہے- کیونکہ یہ کسی ایک مخصوص بولی کے ساتھ نفرت انگیز عمل نہیں بلکہ زبان کے خلاف ہے-

ہمارے ماہرین تعلیم کو ایسی پالیسیاں ڈیزائن کرنے پر زور دینا چاہیے جو والدین کی اس تباہ کن اور متعصبانہ ترجیحات سے متاثر نہ ہوں پائیں- اگر نصاب میں ہمارے زرخیز کلاسیکل ادب کو متعارف کروایا جاۓ تو انہیں ایک زبان کی طرف گمراہ کن جنون کو کم کرنے میں مدد ملے گی-

ہماری کلاسیکل تحریریں جیسے، وارث شاہ کی 'ہیر رانجھا'، شاہ عبدللطیف بھٹائی کا 'شاہ جو رسالو' ہمارے لسانی ورثے کا خزانہ ہیں، اور خطے کی موسیقیت سے لبریز ہیں- اگر بچوں کو ان تحریروں سے وابستگی ہو جاتی ہے تو ان میں ان زبانوں سے بھی وابستگی پیدا ہو جاۓ گی جو ان کے اطراف موجود ہیں-

وہ ادبی حوالوں کے ذریعہ، ایک نئے طریقے سے جیوگرافی سے متعارف ہونگے، اور اس طرح ان کے دلوں سے اپنے ارد گرد ماحول سے اجنبیت کا احساس بھی ختم ہو جاۓ گا-

اور ممکن ہے ان کہانیوں سے پیدا ہونے والے احساس وابستگی سے آہستہ آہستہ، مقامی زبانوں کو جاننے اور سمجھنے کا شعور پیدا ہو اور ایک دن ایسا آئے کہ وہ اس بولی کو سیکھنا چاہیں جس میں لکھی جانے والی یہ کہانیاں انہیں پسند ہیں-

مجھے اس تعلیمی پالیسی پر اندھا اعتماد ہوگا جو ایک دن یہ بچے خود تخلیق کریں گے-

انگلش میں پڑھیں

لکھاری ایک مصنف، ترجمہ نگار اور www.kitab.com.pk کے پبلشر ہیں

ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں