پاکستان میں ریپ کلچر

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2014
ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر لڑکی توجہ دلانے کے لئے خودکشی نہیں کر سکتی- فائل فوٹو۔۔۔
ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر لڑکی توجہ دلانے کے لئے خودکشی نہیں کر سکتی- فائل فوٹو۔۔۔

پچھلے جعمرات کو ایک پارک سے گزرتے ہوئے میں نے دو مردوں کی گفتگو سنی جو اس ریپ کیس کے حوالے سے بات کر رہے تھے جو کہ حالیہ دنوں میں میڈیا کی ہیڈلائنز بنا- یہ اس کیس میں متاثرہ لڑکی کے ہلاکت سے پہلے کی بات ہے- دونوں افراد پڑھے لکھے معلوم ہو رہے تھے اور ان کی عمریں پچاس کے قریب ہوں گی- ایک کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامہ مختاراں مائی کی طرح شہرت حاصل کرنے لئے رچایا گیا ہے-

دوسرے نے جواب دیا "بالکل ٹھیک، میں بھی اس سے اتفاق کرتا ہوں، عورتیں سوائے بلیک میلرز کے کچھ نہیں ہوتیں- کیا آپ کہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا اس میں اس لڑکی کی مرضی شامل نہیں ہو گی؟"

میں پاکستان میں اس قسم کی بکواس سن سن کر تھک چکا ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں رائج رویے کے اعتبار سے یہ سب تو کچھ بھی نہیں-

ذرا سوچئے ملزمان کو ضمانت ملنے پر ایک عورت خود کو آگ لگا لیتی ہے اور بعد میں اس سے آنے والے زخموں کی وجہ سے موت کی نیند سو جاتی ہے، اور وہ یہ سب کچھ شہرت حاصل کرنے کیلئے کرتی ہے؟ یا پھر، یہ ریپ تھا ہی نہیں بلکہ اس میں اس کی رضا اور مرضی شامل تھی؟

میں یہ نہیں که رہا کہ پورا پاکستانی سماج اسی طرح سوچتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ زن بیزاری یا عورتوں سے نفرت کی جڑیں ہمارے معاشرے میں اس حد تک گہری ہو چکی ہیں کہ اکثر ریپ اور اس کے بعد کے حالت میں بھی کارگر ردعمل سامنے نہیں آتا-

جب اس عورت کی موت کی خبر میڈیا میں آئی تو میرے دل میں یہ خواہش جاگی کہ میں ان دونوں حضرات کو ڈھونڈوں اور ان سے پوچھوں کہ اس کی موت کے بعد ان کے خیالات کیا ہیں- خودکشی کے ذریعے موت پر اکثر خیالات بدل جاتے ہیں، اس عورت کے حوالے سے بھی، لوگوں کے خیالات تبھی بدلے جب اس کی موت واقع ہو گئی اور لوگوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا-

حکومتی مشینری بھی ایک دم سے حرکت میں آ گئی اور میڈیا کی توجہ اس بات پر مرکوز ہو گئی کہ اس کے ریپسٹس کو سزا دلائی جائے جو کہ دوسری صورت میں ناممکن تھا- لیکن سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر لڑکی توجہ دلانے کے لئے خودکشی نہیں کر سکتی- وہ ان نایاب بہادر عورتوں میں سے تھی جنہوں نے حقیقت میں ریپ کو رپورٹ کروایا- پاکستان میں ایسا کرنا بہت دلیرانہ قدم ہے اگر اس سے جڑی بدنامی کو دیکھا جائے-

عورتوں کے حوالے سے معاشرتی تصورات، خاص طور پر عورت کی عصمت کو خاندان کی غیرت اور عزت سے جوڑنے کے معاملے پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے- اس تعلق کی وجہ سے، اگر کوئی عورت ریپ کا نشانہ بن جائے تو اسے طاقت کے زور پر خاموش کرا دیا جاتا ہے تا کہ خاندان کی غیرت اور عزت پر کوئی حرف نہ آئے بھلے اس کی زندگی تباہ ہو جائے-

اور پھر واقعے کا شکار ہونے والوں پر الزام دھرنے کے رویے کا معاملہ ہے- اکثر دیکھا گیا ہے کہ بجائے معاشرے میں رائج، عورتوں کے حوالے سے مردانہ رویوں کی اصلاح کی جائے ہماری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ عورتوں کی اصلاح کی جائے جیسے کہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سادہ کپڑے پہنیں اور زیادہ نقل و حمل سے پرہیز کریں- جب کوئی ریپ کا واقعہ پیش آتا ہے، تو ہمارے معاشرے میں اکثر افراد سب سے پہلے تو متاثرہ لڑکی کو غیض و غضب کا نشانہ بناتے ہوئے اسے 'غفلت' برتنے کا قصوروار قرار دے دیتے ہیں- یا پھر 'جان بوجھ کر جنسی اشتعال' پھیلانے کا قصور اس کے سر پر ڈال دیتے ہیں-

اس تمام معاشرتی دباؤ اور اس سے جڑی بدنامی کے باوجود، اگر کوئی عورت دلیری اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریپ کی رپورٹ کرتی بھی ہے تو سسٹم اس کو ناکام بنا دیتا ہے جیسا کہ آمنہ بی بی کے کیس میں ہوا- پاکستان میں ریپ کا کلچر پنپنے کی وجوہات یہی معاشرتی دباؤ، شکار ہونے والوں کو قصوروار گرداننا اور کسی پروپر قانونی طریقہ کار کی غیر موجودگی ہیں- ریپ کرنے والوں کو پاکستان میں سزا کا کوئی ڈر یا خوف نہیں-

بدقسمتی سے یہ بھی مکمل تصویر نہیں- اکثر ریپ کو ایک قسم کی مردانہ کج روی سے تعبیر کیا جاتا ہے- ریپ کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے، ہمیں مردوں اور عورتوں کی جنسی ضروریات اور ان کی فطرت کو جاننا ہو گا- ریپ ایک طرح سے اپنی مردانگی دکھانے کا بھی طریقہ ہے جس کے تحت عورت کو اس کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے کہ وہ مردوں کے کھیلنے کیلئے محض ایک شے ہے جسے وہ جیسے اور جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں-

پاکستان جیسے ملکوں میں عورتوں کی حیثیت محض "قدرتی" نہیں بلکہ معاشرہ اس کی تعمیر ثقافت اور قوانین کے ذریعے کرتا ہے- اور اس تعمیر کو ہمارے رویے اور رسم و رواج مضبوط بناتے ہیں- ریپ ایک طرح سے طاقت کے اظہار کی ایک "غیر قانونی" شکل ہے اور یہ وبا ہمارے معاشرے کی جڑوں تک سرایت کر چکی ہے-

یہ بھی ایک بدقسمتی ہے کہ ریپ ایک عالمگیر دھچکا ہے، جس کے حوالے سے کم از کم مغربی معاشروں میں، جہاں ترقی پسند تحریک چل رہی ہے، ریپ کی رپورٹ کرنے والی عورتوں کے ساتھ احترام کا رویہ رکھا جاتا ہے-

میں اس سب کی نشاندہی اس لئے کر رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے کی ذہنیت کا دفاع کرنے والے اکثر امریکہ میں ہونے والے ریپ کے اعداد و شمار بتانا شروع ہو جاتے ہیں- وہاں تو معاشرہ اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ اگر کسی کا ریپ ہو بھی جائے تو بھی یہ اس کا ذاتی المیہ اور سانحہ ہی رہتا ہے نہ کہ پورے معاشرے کا-

میں تو یہ سوچتا ہوں کہ آخر ایسے کتنے بھیانک واقعات کے بعد ہمارا معاشرہ جاگنا شروع ہو گا- ہماری زیادہ تر محنت محض اس بات پر نہیں ہونی چاہئے کہ اس حوالے سے بٹر قانونی طریقہ کار تشکیل دیا جائے بلکہ اس پر بھی ہونی چاہئے کہ کیسے ہمارے یہاں صنفوں کی حیثیت کی تعمیر معاشری ہوتی ہے-

جب تک ہم اپنے معاشرے میں مرد اور عورت کی شناخت اور حیثیت کے حوالے سے تعمیر کئے جانے والے اصولوں پر نظر ثانی نہیں کرتے، ہمارے معاشرے میں ریپ کا کلچر پروان چڑھتا رہے گا-

انگلش میں پڑھیں

لکھاری ایک اکنامسٹ، ایک فری لانس جرنلسٹ اور ایک ممتاز لبرل بلوگزین، پاک ٹی ہاؤس کے کو ایڈیٹر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں